خواجہ سراؤں پر ہونے والے ظالمانہ تشدد پر خاموشی مرگ کیوں؟

خواجہ سراؤں پر ہونے والے ظالمانہ تشدد پر خاموشی مرگ کیوں؟
پاکستان کے سماج میں خواجہ سراؤں کو بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں بلکہ بطور انسان خواجہ سراؤں کو معاشرے میں شامل ہی نہیں کیا جاتا ہے۔ جبکہ خواجہ سرا جیتے جاگتے، سانس لیتے انسان ہیں۔ ریاست، حکومت، سیاسی جماعتیں اور معاشرہ خواجہ سرا کی بات نہیں کرتا ہے بلکہ انہیں الگ تھلگ رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

سماجی میل جول بالکل نہیں ہے۔ عبادت گاہیں مساجد اور چرچ خواجہ سراؤں کے لئے بند ہیں۔ سماجی اجتماعات میں خواجہ سرا نہیں آسکتے ہیں۔ سماجی رویے بھی خواجہ سراؤں کے لئے ہتک آمیز ہیں۔

دوسری جانب خواجہ سراؤں پر بڑھتا ہوا تشدد انتہائی تشویشناک ہے۔ رواں ماہ میں ہی جہلم اور اسلام آباد میں خواجہ سراؤں کو قتل کیا گیا ہے۔ ننگا کر کے مارا پیٹ کی اور کان پکڑا کر تذلیل کی گئی۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ کئی واقعات ہیں، جس پر خواجہ سرا کمیونٹی سمیت سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مؤثر آواز اٹھانے سے قاصر رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں، سیاستدانوں، وزرا، پارلیمنٹرین کی طرف سے مذمتی بیان تک نہیں آیا ہے۔ ریاستی مشینری اور قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بھی روایتی خاموشی رہی ہے۔ الغرض معاشرے کے کسی فرد نے نوٹس ہی نہیں لیا کہ خواجہ سرا بھی انسان ہیں۔ خواجہ سراؤں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا گیا ہے۔

خواجہ سراؤں کی تنظیمیں بھی محض نمائشی اور چند خواجہ سراؤں کے مفادات کے لئے ہیں۔ جنہیں این جی اوز فنڈنگ، گرانٹ کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ این جی اوز کا کردار بھیانک رہا ہے۔ این جی اوز نے خواجہ سراؤں کو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کردیا ہے۔

خواجہ سرا بطور ایک کمیونٹی نہیں رہی ہے۔ خواجہ سراؤں کی این جی اوز کوئی خواجہ سرا قتل ہو جائے خاموش رہتی ہیں۔ کسی خواجہ سرا کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے خاموش رہتی ہیں۔ یہ گھناؤنا رویہ اور طرز عمل ہے۔ این جی اوز کا کردار صرف خواجہ سرا کے حوالے سے نہیں بلکہ مجموعی رویہ ایک ہی ہے۔

اگر معذور افراد کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس سے بھی بدترین حالات ہیں۔ ہر معذور فرد نے اپنی این جی او بنا رکھی اور گھر کے افراد شامل کر کے معذور افراد کی مشکلات اور دکھ و درد بیچ کر فنڈ، چندے، مخیرحضرات سے خیرات کی دوڑ میں شامل ہیں۔ خواجہ سراؤں، معذور افراد اور اقلیتوں سمیت مظلوم طبقات کے حقوق کےتحفظ ور انہیں بنیادی انسانی سہولیات کی فراہمی کےلئے بات نہیں کی جاتی ہے۔ صرف اور صرف کاروبار کیا جاتا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ خواجہ سرا کمیونٹی اپنے اندر اتحاد پیدا کرے اور یہ این جی اوز کا کھیل بند کرکے اپنے حقوق اور تحفظ کے لئے کام کرے۔

یہ بات اچھی طرح ذہین نشین کرنے کی ہے کہ خواجہ سراؤں کو تحفظ اور حقوق صرف ریاست دے سکتی ہے پاکستان کا آئین اور قانون دے سکتا ہے۔ کوئی این جی اوز نہیں دے سکتی۔ بطور ریاست کے شہری اپنے حقوق اور تحفظ کے لئے آواز پیدا کریں۔ یہ بات صرف خواجہ سراؤں کےلئے ہی نہیں ہے بلکہ پاکستان کے تمام مظلوم، کمزور طبقات کے لئے ہے کہ آئین پاکستان اور قانون کی حکمرانی کے لئے آواز پیدا کی جائے اور اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ ریاست کی جانب سے آئین میں دیے گئے ریاستی باشندوں کو حقوق یکساں طور پر سب کو مل سکیں اور تمام شہری بنیادی انسانی حقوق اور سہولیات سے مستفید ہو سکیں۔

آئین پاکستان ہر شہری کو زندگی کے تمام تر حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ ہر شہری کا فرض ہے کہ اگر اس کے حقوق سلب ہوتے ہیں تو کہرام مچائے۔ شور کرے، آئین اور قانون کی عمل داری کا مطالبہ کرے۔ خاموشی کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اگر خواجہ سراؤں کے ساتھ اس طرح ظلم ہوا ہے تو شور مچانے کی ضرورت تھی۔ یہ خاموشی مرگ کیوں ہے؟ کیا معاشرے کی موت ہوچکی ہے کہ ہم زندہ انسانوں کے قبرستان میں رہ رہے ہیں اگر اس کا جواب نہیں میں ہے تو اس سوال کا جواب ضرور دیا جائے کہ انسانیت سوز مظالم پر بھی خاموشی مرگ کیوں ہے؟

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔