گزشتہ دنوں 23 مارچ کو یوم پاکستان ’’شایان شان‘‘ طریقے سے منایا گیا۔ توپوں کی گھن گرج سے دن کا آغاز ہوا۔ ہر صوبے میں 21,21 گولے داغے گئے اور یوں یہ تعداد مجموعی طور پر 84 بن جاتی ہے۔ وفاق کا حصہ بھی شامل کریں تو اس میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ بعدازاں دفاعی صلاحیت کا مظاہرہ پریڈ کے ذریعے کیا گیا۔
حاضرین کو غوری مزائل سے ہماری فضائوں کے فخر جے ایف 17 تھنڈر جنگی طیاروں تک سب دکھایا گیا۔ ملائشیاء کے وزیراعظم مہاتیر محمد بھی پریڈ میں موجود تھے۔ سپاہ سالار اور افواج کی مکمل کمان بھی موجود تھی۔ وزیر اعظم عمران خان اور صدر پاکستان عارف علوی بھی نظر آئے۔
پریڈ ختم ہوئی تو ایوان صدر میں قومی ہیروز کو اعزازات دینے کے لئے ایک الگ تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ایوارڈز وصول کرنے والے ہیروز کی فہرست میں نامور اداکارہ مہوش حیات کا نام بھی شامل تھا۔ انہوں نے حسن کارکردگی پر تمغہ امتیاز حاصل کیا اور اپنی اس کامیابی پر سوشل میڈیا پہ بجا طور پر فخر کا اظہار بھی کیا۔
سوشل میڈیا مہوش حیات کو تمغہ امتیاز ملنے کی خبروں پر ہی سلگنا شروع ہو چکا تھا مگر ان کی تصاویر شئیر ہونے کے بعد تو آسٹریلیا کے جنگلوں میں لگی آگ کی طرح شعلوں کی زد میں تھا۔ ایک طرف سوال یہ تھا کہ مہوش حیات نے ایسا کیا ہی کیا ہے کہ اتنا بڑا ایوارڈ ان کو دے دیا گیا؟
https://youtu.be/jpTmHcwechw
دوسری طرف مہوش حیات کا دفاع کرنے والے ان کے ناقدین کو چڑانے اور جوابی حملے کرنے میں مصروف تھے۔ کئی افراد نے اسے ’’پرچی‘‘ قرار دیا تو بہت سوں نے ایک عورت کی کامیابی کو ہضم کرنے کے مشورے داغے۔ بہرحال سوشل میڈیا پر مہوش حیات کے تمغہ امتیاز حاصل کرنے پر اسلامی فکر معاشرت سے لے کر تحریک نسوانیت تک، تمام زاویے، تمام تر بحثیں کر ڈالی گئیں۔ اس معاملے پر یوں حق جتایا گیا، یوں جذبات کا اظہار ہوا، یوں معاشرتی اقدار کی نوحہ خوانی کی گئی کہ یہ محسوس ہوا گویا مہوش حیات کو ایوارڈ دیا جانا ایک قومی مسئلہ ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ یہ کیسی ریاست ہے جس نے مہوش حیات کو تمغہ امتیاز دینے سے قبل اپنی مرضی نما رائے سے آگاہ کرنے پر تلی عوام کی فکر سے آگاہی حاصل نہ کی؟ ریاست اگر انہیں حق دیتی تو وہ بتاتے کہ مہوش حیات نام کی اس اداکارہ میں ایسا کوئی گن نہیں کہ وہ تمغہ امتیاز حاصل کرتیں۔ ریاست کو درحقیقت یہ چاہئے تھا کہ وہ عوام سے ایسے ہی پوچھتی جس طرح 25 جولائی 2018ء کو پوچھا گیا۔ اس دن ریاست نے ’’قوم‘‘ کی مرضی سے اقتدار ’’اصل حق دار‘‘ کو پہنچانے کے عمل کی نگرانی کی۔ یا چلیے ایسے ہی پوچھ لیا جاتا جس طرح 460 ارب روپے کے کسی معاملے پر لاکھوں ہاریوں کی مرضی عزیز رکھی گئی؟
ریاست یہ بھی نہ کرسکی کہ تمغہ دینے سے قبل کم از کم عوام سے یہ ضرور پوچھ لیتی کہ جس طرح آپ کی مرضی کو مقدم رکھتے ہوئے دھرنوں کے مبینہ ’’چیف اکاونٹنٹ‘‘ کو تمغہ دیا گیا، کیا مہوش حیات کو بھی ایک تمغہ دے دیا جائے؟ جیسا کہ ایک ’’شریف‘‘ سے صحافی ایوارڈ لینے سے قبل عوامی مرضی کے کڑے میرٹ سے گزرے، کچھ ایسے ہی مہوش حیات کے لیے عوام سے کیوں نہ پوچھا گیا؟
اور تو اور ’’ترجمان زندہ دلان پاکستان‘‘ جس طرح عوام کی مرضی کا ٹیسٹ امتیازی نمبروں میں پاس کرنے کے بعد اس ایوارڈ کے حقدار ٹھہرے، اسی عوام کی مرضی کے ٹیسٹ کو مہوش حیات پر کیوں نہ لاگو کیا گیا؟ مثال کے طور پر کپتان مارکہ سوئنگ کے سلطان کی ریورس سوئنگ اور بورے والا ایکسپریس کا یارکر بھی تو ہم سب کی مرضی سے ہی ایوارڈ کا حقدار ٹھہرا، وگرنہ کسی میں کیا جرأت تھی کہ وہ یہ ایوارڈ حاصل کرتے؟
اب یہی زیادتی دیکھئے ناں کہ عوام کی مرضی سے شناسائی حاصل کر کے ہی تو نواز شریف کو ضمانت دی گئی جس طرح عوام کی مرضی کی ’’روشنی‘‘ میں انہیں جیل کی ہوا کھلائی گئی تھی۔ اور ایک یہ مہوش حیات ہیں……ہماری ( عوام کی) مرضی کے میرٹ سوشل میڈیا پر ہی ٹنگے رہ گئے اور انہیں ایوارڈ دے دیا گیا۔ ہماری آرا سوشل میڈیا پر ہی گل سڑ رہی ہیں۔ میرٹ کی سنگین خلاف ورزی سمجھ سے بالاتر ہے۔ آہ، افسوس ……صد افسوس ……اس ملک کا کیا بنے گا؟ کیا بس اب یہ ہونا ہی رہ گیا تھا؟