بلوچستان؛ انتخابات میں خواتین کا ٹرن آؤٹ کم کیوں رہتا ہے؟

زندگی کی 55 بہاریں دیکھنے والی گاج کی رہائشی عابدہ نامی خاتون نے شناختی کارڈ ہونے کے باوجود اپنی زندگی میں ایک مرتبہ بھی ووٹ نہیں ڈالا۔ عابدہ کے مطابق اس کا خاوند نہیں چاہتا کہ گھر کی عورتیں غیر مردوں کے ساتھ جا کر لائنوں میں لگیں جہاں پردے اور آرام کی کوئی سہولت نہیں۔ عابدہ کے مطابق یہ پابندی اس کی بیٹی اور بہو پر بھی ہے۔

بلوچستان؛ انتخابات میں خواتین کا ٹرن آؤٹ کم کیوں رہتا ہے؟

گاج سے تعلق رکھنے والی 40 سالہ سکینہ نامی خاتون جس نے اپنی زندگی کا پہلا اور آخری ووٹ 2008 کے انتخابات میں کاسٹ کیا تھا، انہوں نے گھر سے انتخابی مرکز تک اپنے سفر کی روداد بیزاری سے سناتے ہوئے کہا کہ انتخابی مرکز تک جانا آسان کام نہیں تھا، اس کے لیے انہیں صبح اٹھ کر اور اپنے گھر کے کام کاج چھوڑ کر کئی گھنٹوں تک بنجر اور پہاڑی راستوں پر پیدل سفر کرنا پڑا تھا۔

یونین کونسل گاج خضدار سے 88 کلومیٹر دور تحصیل زہری میں واقع ہے اور دیہی علاقہ ہونے کی وجہ سے آنے جانے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ پہاڑی اور بنجر علاقے میں سڑکیں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

خضدار کی ایک اور یونین کونسل کمب جو کہ پہاڑی اور دشوار گزار علاقوں پر مشتمل ہے، 2018 کے الیکشن میں خضدار سے 22 کلومیٹر دور اس علاقے میں چار پولنگ سٹیشن تھے۔ خضدار کے زیادہ تر دیہی علاقے شہر سے دور پہاڑی اور بنجر علاقوں پر مشتمل ہیں۔

ٹرانسپورٹ کا مسئلہ

خضدار میں ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات کی عدم دستیابی سے خواتین کے ووٹوں کا ٹرن آؤٹ کم رہنے کے امکانات ہیں۔ خضدار سمیت بلوچستان کے دیہی، خاص طور پر دور دراز کے علاقوں میں بلوچ خواتین کو جہاں دیگر سماجی اور معاشی مسائل کا سامنا رہتا ہے وہاں انہیں سیاسی عمل میں بھی فعال کردار ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح بھی شہری علاقوں کی نسبت کم ہی رہتی ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی مرکزی خواتین سیکرٹری اور سابق رکن بلوچستان اسمبلی شکیلہ نوید اس حوالے سے کہتی ہیں کہ جہاں امیدوار خواتین ووٹرز کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کرتے ہیں وہاں ٹرن آؤٹ زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے مطابق بلوچستان کی آبادی دور دور تک پھیلی ہوئی ہے کیونکہ رقبے کے لحاظ سے بلوچستان پاکستان کا آدھا حصہ ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پولنگ سٹیشن سرکاری سکولوں اور دفاتر میں قائم کئے جاتے ہیں جہاں تک خواتین کا پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔

2023 کی مردم شماری کے مطابق ضلع خضدار کی آبادی 9 لاکھ 97 ہزار 214 افراد پر مشتمل ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نئی حلقہ بندیوں کے مطابق خضدار صوبائی اسمبلی کی 3 نشستوں پر مشتمل ضلع ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق 2018 کے الیکشن میں پی بی 38 خضدار 1 کے 98 پولنگ سٹیشن تھے اور رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 66 ہزار 64 تھی جن میں 38 ہزار 46 مرد جبکہ 27 ہزار 18 خواتین تھیں۔ 2018 کے الیکشن میں خواتین کے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 16 ہزار 69 جبکہ ٹرن آؤٹ 43.01 فیصد تھا۔ اس حلقے میں ٹوٹل ٹرن آؤٹ 56.56 فیصد تھا۔

حلقہ پی بی 39 خضدار 2 کے پولنگ سٹیشن 74 تھے اور رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 86 ہزار 9 سو 33 تھی جن میں مرد ووٹرز 49 ہزار 1 سو 29 اور خواتین ووٹرز 37 ہزار 8 سو 4 تھیں۔ خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 18 ہزار 9 سو 5 یعنی 42.22 فیصد اور ٹوٹل ٹرن آؤٹ 50.79 رہا۔

اسی طرح حلقہ پی بی 40 خضدار 3 کے پولنگ سٹیشن 93 جبکہ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 75 ہزار 5 سو 50 تھی جن میں سے مرد ووٹرز 44 ہزار 1 سو 62 اور خواتین ووٹرز کی تعداد 31 ہزار 3 ہزار 88 تھی۔ یہاں خواتین کا ٹرن آؤٹ 15 ہزار 7 سو 45 یعنی 37.61 فیصد تھا اور ٹوٹل ٹرن آؤٹ 55.41 رہا۔

الیکشن کمیشن خضدار کی جانب سے رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ ابھی تک پورے ضلع خضدار میں کل 295 پولنگ سٹیشن ہیں۔

دوسری بات پولنگ سٹیشن کم سے کم 600 اور زیادہ سے 1200 ووٹر کے لئے بنایا جاتا ہے۔ اکثر پولنگ سٹیشن سرکاری بلڈنگز میں قائم کیے جاتے ہیں۔ جہاں سرکاری عمارت میسر نہیں ہوتی وہاں پر کلومیٹر سے زیادہ دور بنانا پڑتا ہے۔

انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح میں کمی کے اسباب

خضدار بلوچستان کا ایک قبائلی علاقہ ہے اور خضدار کے حلقہ وڈھ سے مینگل قبیلہ، زہری کے حلقے میں زہری قبیلہ جبکہ نال کے حلقے میں بزنجو قبیلہ کے لوگ منتخب ہوتے آ رہے ہیں۔

سیاسی کارکنوں کے مطابق خضدار میں خواتین کا ٹرن آؤٹ کم ہونے میں جہاں قبائلی اور سیاسی وجوہات ہیں، وہاں معاشی استحکام اور ذرائع مواصلات کا نہ ہونا بھی خواتین کی پولنگ سٹیشن تک آنے میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔ پورا بلوچستان جہاں مردوں کی نسبت خواتین کے ووٹوں کا اندراج انتہائی کم ہے، وہاں دیہی علاقوں میں یہ تناسب مزید کم ہے۔ شکیلہ نوید نے بتایا کہ بلوچستان میں قبائلی نظام کی وجہ سے خواتین کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بعض علاقوں میں وہ جس امیدوار کو سپورٹ کرتے ہیں تو کسی حد تک خواتین کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

شناختی کارڈز بنوانے میں مشکلات کا سامنا

30 سالہ حنیفہ نامی خاتون جو نانا دیر گاج کی رہائشی ہے، کا شناختی کارڈ ابھی تک نہیں بنا ہے۔ انہوں نے شناختی کارڈ نہ بنوانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ دیہی زندگی میں شناختی کارڈ کا ہونا نہ ہونا ایک جیسا ہے کیونکہ انہیں نہ سرکاری نوکری کرنی ہے، نہ ہی ایسے معاملات پیش آتے ہیں کہ انہیں شناختی کارڈ بنوانے کی ضرورت پڑے۔ تاہم وہ اس بات پر آمادہ تھیں کہ اگر کبھی ان کا شناختی کارڈ بنے گا تو ان کی کوشش ہو گی کہ وہ اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہاں ایک جانب پدرشاہی خیالات کی وجہ سے مرد بعض اوقات خواتین کی تصویر سمیت شناختی کارڈ بنوانے پر راضی نہیں ہوتے، وہیں شناختی کارڈ بنوانے کے لیے سہولیات کا فقدان بھی ایک بڑی وجہ ہے۔

شکیلہ نوید نے اس حوالے سے بتایا کہ 2013 اور 2018 کے الیکشن کے وقت نادرا کی مدد سے خواتین کے شناختی کارڈ بنائے گئے تھے اور ووٹ رجسٹرڈ کیے گئے تھے۔ ہم نے فافن کی مدد سے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں خواتین کے شناختی کارڈ بنوائے اور خواتین کے ووٹوں کا اندراج کروایا۔ بلوچستان میں جہاں ہماری پارٹی کے یونٹ موجود ہیں خواتین کو انتخابی عمل کا حصہ بنانے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ غربت کی وجہ سے دور دراز علاقوں کے لوگ شناختی کارڈ بنوانے شہروں میں نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ڈونرز کے ساتھ مل کر شناختی کارڈ بنانے کے عمل کو تیز کرے تاکہ 18 سال کا ہر شہری ووٹ دینے کا اہل ہو۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ضلع خضدار میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 97 ہزار 339 ہے جن میں مرد ووٹرز 1 لاکھ 63 ہزار 438 جبکہ خواتین ووٹرز 1 لاکھ 33 ہزار 901 ہیں۔

شکیلہ نوید نے بتایا کہ جس وقت میں بلوچستان اسمبلی کی رکن تھی، میں نے اپنی پارٹی کے دیگر ممبران کے ساتھ مل کر خواتین کے شناختی کارڈز بنوانے پر کام کیا۔ ان کے مطابق مشکلات بہت سی تھیں البتہ ان میں سے کچھ کا ازالہ کرنے کیلئے بلوچ سیاست دان اپنی بساط کے مطابق ان سے نمٹنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ جیسا کہ 'موبائل رجسٹریشن ویری فکیشن' جو کہ وین کے ذریعے دور دراز علاقوں میں جا کر خواتیں کے شناختی کارڈ کے اجرا کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں۔ چونکہ بلوچستان میں علاقے دور اور آبادی پھیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے لوگ، جن میں اکثریت خواتین کی ہے، صرف شناختی کارڈ کیلئے دور دراز سفر کرنا گوارا نہیں کرتے جس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر الیکشن ٹرن آؤٹ پر پڑتا ہے۔ جن جن علاقوں میں یہ ویںز متعارف کرائی گئی ہیں ان میں خضدار، مستونگ، نوشکی اور گوادر کے گرد و نواح کے علاقے شامل ہیں۔

بی بی ناز کے مطابق چونکہ ہم دور دراز علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور غربت کی وجہ سے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ شہر جا کر شناختی کارڈ بنوائیں۔

خواتین کا بس یہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ خواتین کی بڑی تعداد پیسے اور سفری سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے شہروں تک جانے اور شناختی کارڈ بنوانے سے محروم ہے۔ شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ایسی خواتین بے نظیر انکم سپورٹ جیسی معاشی سکیم سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتیں۔ دور افتادہ اور پہاڑی علاقے میں ہونے کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں آبادی کم اور رقبہ وسیع ہے جس کی وجہ سے پولنگ اسٹیشن دور دراز علاقوں میں قائم کیے جاتے ہیں۔

الیکشن کمیشن، نادرا اور دیگر سرکاری اداروں کی دستیاب معلومات کے مطابق دیہی علاقوں میں خواتین کی ایک واضح اکثریت ابھی تک شناختی کارڈ کے حصول سے محروم ہے، جس کی اہم وجہ شناختی کارڈ کی اہمیت سے لاعلمی ہے۔ وہاں پر بعض لوگوں کو شہروں تک رسائی نہیں کہ وہ شہروں میں جاکر شناختی کارڈ بنوا سکیں۔

بلوچستان میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح میں کمی کے اسباب جاننے کے لیے میں نے جے یو آئی کے رہنما سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اور چیف آف سراوان نواب اسلم خان رئیسانی سے رابطہ کیا تو نواب اسلم خان رئیسانی نے بلوچستان میں خواتین خاص طور پر دور دراز کے علاقوں میں ووٹنگ کی کم شرح پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شفاف انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان میں عوام کا اعتماد اب انتخابات سے اٹھ گیا ہے اور عوام کو احساس ہونے لگا ہے کہ 5 سال کے بعد منتخب شدہ امیدواروں پر اعتماد اور عدم اعتماد کا اختیار ان کے پاس نہیں بلکہ امیدواروں کے انتخاب کا عمل کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا عوام انتخابی عمل سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔

نواب اسلم خان رئیسانی نے آمد و رفت سمیت دیگر مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ اسباب بھی ووٹنگ کی شرح پر اثرانداز ہوتے ہیں مگر اصل وجہ شفاف انتخابات کا نہ ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں اور امیدوار اپنے حلقوں میں ووٹروں کے لیے سواریوں کا بندوبست کرتے ہیں مگر اس کے باجود ووٹنگ کی شرح سال بہ سال گھٹتی جا رہی ہے۔

سابق سینیٹر میر منظور گچکی کے مطابق انتخابی اصلاحات لانا ضروری ہے جبکہ پولنگ ڈے پر خواتین کو ٹرانسپورٹ فراہم کرنا اس وقت مجھے ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ لوگوں کو پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں۔

ذرائع آمدورفت کی کمی

ایسے علاقوں میں آمدورفت کی سہولیات اور ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے بھی خواتین ووٹ ڈالنے سے محروم رہتی ہیں کیونکہ دور دراز کے پیدل سفر سے جہاں ان کا وقت ضائع ہوتا ہے وہاں انہیں طبی مسائل اور تھکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ انتخابی عمل میں حصہ لینے والے امیدواروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دور دراز علاقوں کے ووٹرز کو ٹرانسپورٹ مہیا کریں۔

انتخابی مرکز میں سہولیات کا فقدان

سکینہ نے انتخابی مرکز پر سہولیات کی عدم موجودگی کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پینے کا پانی تک نہیں ملا اور انتخابی عملہ سست ہونے کی وجہ سے ان کا بہت سارا وقت ضائع ہوا جبکہ اس سفر کے اثرات کئی دن تک ان کی صحت پر رہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ووٹ ڈالنے والوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ سکینہ نے طنزیہ انداز میں کہا کہ شاید ووٹ لینے والوں کو اس کا فائدہ پہنچتا ہو۔

قبائلی نظام ووٹ ڈالنے میں رکاوٹ

زندگی کی 55 بہاریں دیکھنے والی گاج کی رہائشی عابدہ نامی خاتون نے شناختی کارڈ ہونے کے باوجود اپنی زندگی میں ایک مرتبہ بھی ووٹ نہیں ڈالا۔ عابدہ کے مطابق اس کا خاوند نہیں چاہتا کہ گھر کی عورتیں غیر مردوں کے ساتھ جا کر لائنوں میں لگیں جہاں پردے اور آرام کی کوئی سہولت نہیں۔ خضدار کے زیادہ تر علاقوں میں خواتین کے لئے الگ پولنگ سٹیشن نہیں ہیں بلکہ مردوں اور خواتین کے پولنگ سٹیشن ایک ہی جگہ پر قائم ہوتے ہیں البتہ پولنگ بوتھ الگ قائم کئے جاتے ہیں۔

عابدہ کے مطابق ووٹ نہ ڈالنے کی پابندی اس کی بیٹی اور بہو پر بھی ہے۔ عابدہ نے مزید کہا کہ اس کا شوہر جہاں اسے ووٹ ڈالنے نہیں دیتا وہاں وہ بے نظیر انکم سپورٹ جیسی معاشی سکیم سے بھی محروم ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے شوہر کی رضا پر راضی ہے۔

واضح رہے کہ شناختی کارڈ ہونے کے باجود کئی مرد سماجی اور قبائلی خیالات کے حامل ہونے کی وجہ سے خواتین کے ووٹوں کا اندراج تک نہیں کرواتے تاکہ ووٹ ڈالنے کی نوبت ہی نہ آئے۔

یاد رہے کہ بلوچستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں خواتین کی ووٹ ڈالنے کی شرح کم ہونے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے دو سال قبل عالمی صحافتی ادارے ڈی ڈبلیو کو بتایا تھا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کچھ حلقے اور سابقہ فاٹا کے حلقوں میں ووٹرز اندراج کے حوالے سے ہمیشہ مسائل رہے ہیں۔ لہٰذا الیکشن کمیشن کو چاہئیے کہ وہ قبائلی عمائدین کا جرگہ بلا کر ان سے بات چیت کرے اور ان کو رجسٹریشن کے لئے آمادہ کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ قانونی اقدامات بھی کئے جا سکتے ہیں جن میں خواتین کے ووٹ کا اندراج لازمی ہو جیسے کہ جائیداد کی خرید و فروخت وغیرہ۔

چیف الیکشن کمشنر کے مطابق بلوچستان سمیت ملک بھر میں نادرا کا ادارہ دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر خواتین کے شناختی کارڈز بنانے اور ووٹ کے اندراج کی مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔

نعیمہ زہری کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ وہ صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔