عام فکری مغالطے؛ یہ کہ تصوف مذہب کا جزو ہے (II)

مثالیت پسندوں اور صوفیوں میں شروع ہی سے اتحادِ فکر و نظر رہا ہے۔ دونوں میں فرق محض یہ ہے کہ مثالیت سراسر نظریاتی اور عقلیاتی ہے جس میں وجودِ مطلق کے اثبات کے لیے منطقی دلائل دیئے جاتے ہیں۔ جبکہ تصوف ذاتِ احد یا وجودِ مطلق کے ساتھ ذوقی و قلبی اتحاد و اتصال قائم کرنے کا نام ہے۔

عام فکری مغالطے؛ یہ کہ تصوف مذہب کا جزو ہے (II)

اس سلسلے کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں؛ عام فکری مغالطے؛ یہ کہ تصوف مذہب کا جزو ہے (I)

حسین بن منصور حلاج (858ء تا 922ء) نے حلول یا اوتار کا نظریہ تصوف میں شامل کیا۔ کتاب الطواسین میں وہ ناسوت، ملکوت، جبروت، لاہوت اور ہاہوت کے عوالم کا ذکر کرتے ہیں۔ ناسوت تاریکی کا عالم ہے جس میں انسان بستے ہیں۔ ملکوت فرشتوں کا مسکن ہے۔ جبروت میں نور جلال جلوہ فگن ہے۔ لاہوت نورِ جمال کی منزل ہے اور ہاہوت خاص حق کا مقام ہے۔ حلاج کہتے ہیں کہ ھو ھو (روحِ یزدانی جو جناب رسالت مآب ؐ میں ظاہر ہوئی) تکوینِ عالم اور تخلیقِ آدم سے پہلے موجود تھی۔ منصور کے اشعار میں سریان اور حلول کے مضامین ملتے ہیں۔ کہتے ہیں۔

سبحان من اظھر ناسوته

سوسنا لا هوته الثاقب

ثم بداني خلعة ظاهراً

في صورة الاكل والشارب

حتى تعد عانيه خلقه

کلخطة الحاجب بالحاحب

ترجمہ: "کیا پاک وہ ذات جس نے ناسوت میں اپنے چمکتے ہوئے لاہوت کو ظاہر کیا۔ پھر اپنی مخلوق میں کھانے پینے والوں کی شکل میں ظاہر ہو گیا۔ یہاں تک کہ اس کی مخلوق نے صاف صاف اس کا معائنہ کیا"۔

ایک شعر میں کہا ہے:

بینی و بینک انی الیازعنی

فارفع بلطفک اني من البين

ترجمہ: "میرے اور تیرے درمیان ‘مَیں’ حائل ہو کر جھگڑ رہا ہے۔ اپنے لطف و کرم سے اس مَیں کو درمیان سے نکال دے"۔

آخر 'میں' کا پردہ اٹھ گیا۔ حلاج نے 'انا الحق' کا نعرہ بلند کیا اور سولی پر گاڑ دیے گئے۔

شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے اپنی مشہور کتاب فصوص الحکم میں وحدت الوجود یا ہمہ اوست کو نہایت شرح وبسط سے پیش کیا ہے۔ وہ منطقی استدلال کے ساتھ کشف و اشراق کو بھی بروئے کار لاتے ہیں۔ اپنی قطبیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"جب اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ سے لے کر محمد ؐ تک تمام انبیاء اور رسل کے ذوات مجھے دکھا دیئے تو میں ایک مقام و مشہد میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ واقعه شہر قرطبہ میں 586 ہجری میں ہوا۔ اس جماعتِ انبیاء میں سے کسی نے مجھ سے گفتگو نہیں کی مگر ہود ؑ نے، ہود ؑ نے تمام انبیاء کے جمع ہونے کی وجہ بیان کی کہ شیخ ابن العربی کو قطبیت کی مبارک باد دیں"۔ (فصوص الحکم، فص ہودیہ)

اسی طرح ایک مکاشفے کا بیان یوں کرتے ہیں کہ میں نے حالت کشف میں دیکھا کہ کتاب فصوص الحکم رسولِ خدا ؐ نے مجھے دی اور اسے ظاہر کرنے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔

برسبیل تذکرہ شیخ احمد سرہندی نے شیخِ اکبر کے ہمہ اوست کی تردید کی تو انہوں نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ حالت کشف میں اُن پر یہ حقیقت القا ہوئی تھی کہ ہمہ اوست غلط نظریہ ہے۔ اس بات کا فیصلہ کون کر سکتا ہے کہ دونوں بزرگوں میں سے کس کا کشف صحیح تھا؟

بہر حال شیخ اکبر کے نظریہ وحدت الوجود کا حاصل یہ ہے کہ موجود بالذات خدا کے سوا کوئی نہیں۔ سب ماسوا اللہ موجود بالعرض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صفات ذات کی عین ہیں۔ کائنات صفات کی تجلی ہے۔ اس لیے کائنات بھی عین ذات ہے۔ آسان زبان میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات سے علیحدہ خدا کا وجود نہیں ہے۔ ابنِ عربی رب اور بندے کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں سمجھتے۔ فتوحاتِ مکیہ کے ابتدائی اشعار میں فرماتے ہیں:

الرب حق والعبد حق

ياليت شعر من المكلف

ان قلت عبد فذاك ربا

او قلت رب اني يكلف

ترجمہ: "رب بھی خدا ہے اور بندہ بھی خدا ہے۔ پھر مکلف کون رہا؟ کوئی بھی نہیں۔ اگر تم کہتے ہو عبد تو وہی رب بھی ہے۔ جسے تم رب کہتے ہو وہ مکلف کیسے ہو گا؟"

اس عقیدے کی رو سے تکالیفِ شرعی ساقط ہو جاتی ہیں۔ ابن عربی نے علمائے ظاہر کے خوف سے جابجا مذہبی زبان میں اپنے عقائد کو پیش کیا ہے اور ان کی تشریح میں قرآنی آیات بھی لکھ گئے ہیں۔ لیکن ان کے اصل عقائد چھپے نہ رہ سکے اور علماء نے سخت گرفت کی۔ ابنِ تیمیہ نے وحدتِ وجود کو صریح کفر و زندقہ قرار دیا۔ اس موضوع پر انہوں نے ایک رسالہ تالیف کیا جس کا نام ”حقیقت مذہب الاتحادیین“ ہے۔ اس میں صاف صاف لکھتے ہیں کہ ابنِ عربی کا نظریہ وحدت الوجود کفر ہے اور ابنِ عربی کا یہ کہنا کہ وجود عین وجود خالق ہے اور وجود عین اعتبار سے واحد ہے کھلا ہوا الحاد ہے۔

ابنِ عربی نے وہ نتائج قبول کر لئے جو ان کی سریانی الٰہیات سے متبادر ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کائنات کا نہ کوئی آغاز ہے نہ انجام ہوگا۔ وہ عدم سے وجود میں آنے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ زندگی کو فریب ادراک مانتے ہیں اور ایسے شخصی خدا کے قائل نہیں ہیں جو عالمِ مادی سے علیحدہ موجود ہو اور اس کی تنظیم کر رہا ہو۔ وہ لا الہ الا اللہ کی بجائے لا موجود الا اللہ کہتے ہیں۔

شیخِ اکبر نے نواشراقیوں کا صدور یا تجلی کا نظریہ پیش نہیں کیا۔ لیکن ان کے اعیانِ ثابتہ افلاطون کے امثال ہی کی بدلی ہوئی صورتیں ہیں۔ ابنِ عربی کے خیال میں اعیان‌ِ ثابتہ حقیقتِ مطلق اور عالمِ ظواہر کے درمیان ضروری واسطے ہیں جنہیں وہ مفاتیح الغیب بھی کہتے ہیں۔

شیخِ اکبر نے حقیقتِ محمدیہ کے تصور کی شکل میں فلاسفہ یونان کا لوگس کا مشہور و معروف نظریہ پیش کیا ہے۔ یاد رہے کہ ان کی حقیقتِ محمدیہ جناب رسالت مآب ؐ کی شخصیت نہیں ہے بلکہ یزدانی قوت ہے جو تکوینِ عالم اور تخلیقِ آدم کا باعث ہوئی ہے۔ اور حلاج کے ھو ھو سے ملتی جلتی ہے۔ ابن عربی کے روحانی شاگرد مولانا روم جناب رسالت مآب ؐ کی زبانی فرماتے ہیں:

نقش تن را نا فتاد از بام طشت

پیش چشمم کل آت آت گشت

بنگرم در غوره می بینم عیاں

بنگرم در نیست شے بینم عیاں

بنگرم سر عالمی بینم نہاں

آدم و حوا نرستہ از جہاں

من شما را وقت ذرات الست

دیدہ ام پابستہ و منکوس واست

از حدوث آسمان بے عمد

آنچہ دانستہ بدم افزون نشد

من شما را سرنگوں مے دیدہ ام

پیش ازان کز آب و گل بالیده ام

ترجمہ: "انسانی وجود کی صورت ابھی ظاہر نہیں ہوئی تھی کہ میری آنکھ کے سامنے ہر وجود میں آنے والی شے موجود ہو گئی۔ کچے انگوروں پر نظر کرتا ہوں تو ان کے اندر صاف طور سے شراب دیکھ لیتا ہوں۔ میں معدوم کے اندر نگاہ ڈالتا ہوں تو شے کو صاف موجود پاتا ہوں۔ میں بعید کی بات پر نگاہ ڈالتا ہوں اور اس وقت ایک مخفی عالم کو دیکھ رہا ہوں جب کہ آدم اور حوا جہان میں پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ میں نے تم کو الست کے دن یعنی یوم میثاق میں ذرات کی سی مخلوق ہونے کے وقت سے قیدی اور سرنگوں اور مغلوب دیکھا ہے۔ جو کچھ مجھے مخلوقات کے ظہور سے پہلے معلوم ہو چکا تھا۔ اس بے ستون آسمان کے پیدا ہونے سے اس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوا۔ جو کچھ اب موجود ہے وہی مجھے پہلے سے معلوم تھا۔ قبل اس کے کہ میں آب و گل سے پیدا ہوا میں نے تم کو قید میں سرنگوں دیکھا"۔

ایک اور جگہ جناب رسالت مآب ؐ ہی کی زبانی فرماتے ہیں:

گر بصورت من ز آدم زاده ام

من زمعنی جد جد افتاده ام

کز برائے من بدش سجدہ ملک

وز پے من رفت بر ہفتم فلک

پس زمن زائید در معنی پدر

پس زمیوه زاد در معنی شجر

اول فکر آخر آمد در عمل

خاصہ فکرے کاں بود وصف ازل

ترجمہ: "اگرچہ بظاہر میں آدم سے پیدا ہوں لیکن حقیقت میں دادے کا دادا ہوں کیوں کہ میرے لیے ہی ان کو فرشتوں نے سجدہ کیا اور میرے لیے ہی وہ ساتویں آسمان پر گئے۔ پس حقیقت میں باپ مجھ سے پیدا ہوا۔ پس حقیقت میں درخت میوے سے پیدا ہوا۔ تجوتیر میں آنے والی چیز وجود میں پیچھے آتی ہے۔ خصوصاً وہ چیز جو ازل صفت ہو"۔

ابنِ عربی کی حقیقتِ محمدیہ، جو ازلی و ابدی قوتِ یزدانی ہے، مولانا روم کے افکار میں شخصیت کی صورت میں نمودار ہوگئی ہے۔ ابن عربی نے حقیقتِ محمدیہ کو حقیقت الحقائق، عقلِ اول، العرش، قلم الاعلیٰ، انسانِ کامل، اصول العالم، آدمِ حقیقی، البرزخ، اکہیولا اور قطب الاقطاب کے نام بھی دیتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق حقیقتِ محمدیہ کائنات کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور اللہ تعالیٰ کی تخلیقی قوت بھی یہی ہے۔ الحق المخلوق به

عیسائیوں نے جناب عیسی ابن مریم ؑ کو کلمہ (لوگس کا لغوی معنی کلمہ ہی ہے) کہا اور انہیں الوہیت کا جامہ پہنا دیا۔ ابنِ عربی نے حقیقتِ محمدیہ کی صورت میں لوگس کا تصور پیش کیا۔ بعد میں الجیلی کے انسانِ کامل اور مجددیہ کے قیم (جو کائنات کو قائم رکھے ہوئے ہے) کی صورت میں یہ تصور قائم و برقرار رہا۔

ابنِ عربی پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ابلیس اور فرعون کو اپنے استاد مانتے تھے۔ ان کے خیال میں ابلیس کی نافرمانی فی الاصل خدا کی فرماں داری تھی کہ اس نے غیر اللہ کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ فرعون نجات پائے گا۔

وہ جنت اور دوزخ کے معروف عقیدے کے بھی قائل نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ جنت سے مراد یہ ہے کہ جس میں تمام کثرت چھپ جائے گی۔ اسی طرح وہ وحی اور الہام کو تخیل کی کارفرمائی سمجھتے ہیں اور افلاطون کے خیرِ محض، فلاطینوس کی ذاتِ بحت اور اسلام کے اللہ کو مترادفات مانتے ہیں۔ فلاسفہ یونان کی حقیقتِ کبریٰ کو انہوں نے الوجود المطلق اور الوجود الکلی کے نام دیئے ہیں۔

ابنِ عربی تصوف و عرفان کے سب سے بڑے مفکر اور محقق تھے۔ ان کی تعلیمات کے اثرات ہمہ گیر اور دور رس ہوئے۔ صدر الدین قونوی، عراقی، ابن الفارض، عبدالکریم الجیلی اور مولانا روم نے وحدت الوجود کی تبلیغ بڑے جوش و خروش سے کی اور دنیائے تصوف میں اس نظریئے کو بے پناہ رواج و قبول حاصل ہوا۔

غزالی نے تصوف کو شریعت میں ممزوج کر دیا۔ جس سے اہلِ ظاہر نے بھی اس کی مخالفت ترک کر دی۔ بارہویں صدی عیسوی میں صوفیہ کے معروف حلقے قادریہ، سہروردیہ، مولویہ، چشتیہ، نقشبندیہ وغیرہ قائم ہو گئے۔ فارسی کے شعرا نے عشقِ مجازی کے پیرائے میں عشق حقیقی کا ذکر اس لطافت اور ندرت سے کیا کہ تصوف کے افکار نے عوام کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ چودھویں صدی میں تصوف ہر کہیں رائج ہو گیا۔

سریان و اتحاد کی دوسری معروف روایت ہندوستان سے شروع ہوئی تھی۔ یہ روایت پریشان افکار کی صورت میں اپنشدوں میں موجود تھی۔ بعد میں ویدانتوں نے اسے نظامِ فکر بنا دیا۔ چھاند وگیہ اپنشد میں ہے:

"یہ تمام کائنات بالجوہر وہ ہے، وہ صداقت ہے، وہ آقا ہے اور وہ تو ہے"۔

اپنشدوں کی تعلیمات کا حاصل یہ ہے کہ برہمن (روح کائنات) اور آتما (انسانی روح) واحد الاصل ہیں۔ برہمن سے کائنات کے صدور کو فلاطینوس کی طرح استعاروں کی صورت میں واضح کیا گیا ہے۔ کائنات برہمن سے اس طرح صادر ہوئی جیسے مکڑی سے جالا یا سورج سے شعاعیں صادر ہوتی ہیں۔ لفظ برہمن برہ سے مشتق ہے جس کا معنیٰ ہے پھیلنا، نشو و نما پانا۔ گویا وہ حقیقتِ کبریٰ جو پھیلتی ہے وہ ہر کہیں محیط ہے۔

آتما کا لغوی معنی جیسا کہ رگ وید میں آیا ہے، ہوا کے جھونکے پھیلنے یا سانس لینے کا ہے۔ اس طرح برہمن اور آتما نوعی لحاظ سے ایک ہی وجود کے دو پہلو ہیں۔ آتما برہمن ہے برہمن آتما ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آتما موضوع اور برہمن معروض ہے۔ مایا یا اودّیا (جہالت) کا تصور اپنشدوں میں جا بجا ملتا ہے۔ چھاند وگیہ اپنشد کے باب پنجم میں عالمِ کثرت کو غیر حقیقی قرار دیا گیا ہے۔ شوتیا شوتر اپنشد میں پہلے پہل اس خیال کا اظہار کیا گیا ہے کہ مادی دنیا فریبِ نگاہ ہے جسے برہمن نے مداری کے کھیل کی طرح ہماری نظروں کے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ اپنشدوں کا برہمن ہندومت کے شخصی خدا ایشور سے مختلف ہے۔ جیسے فلاطینوس کی ذاتِ بحت عیسائیوں کے خدا سے یا ابنِ عربی کا وجودِ مطلق مسلمانوں کے شخصی خدا سے مختلف ہے۔ اسے نرگن نرا کار (بے چون و بے چگوں) اور انتریامی (کائنات میں طاری و ساری) کہا گیا ہے۔ اس کی تعریف ممکن نہیں ہے۔ کوئی اس کی ماہیت کے متعلق سوال پوچھے تو جواب ہوگا نیتی نیتی (وہ یہ نہیں، وہ یہ بھی نہیں)۔ اپنشدوں کی تعلیم کی رو سے ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ جیو آتما (انفرادی روح) کا انکشاف کرے (معرفت نفس حاصل کرے) اور پھر اسے اپنے اصل ماخذ برہمن میں فنا کر دے۔

ویدانت سوتر میں اپنشدوں کی تعلیمات مرتب و مدون صورت میں پیش کی گئی ہیں۔ ویدانت کو برہما میمانسا (برہمن سے متعلق تحقیق)، ادویت داد (احدیت کا نظریہ)، برہم سوتر (برہم یا برہمن کا نظریہ) بھی کہا جاتا ہے۔ اور ویدانت سوتر کو ویاس جی اور باوارائن سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کی ترجمانی شنکر اور رامانج نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے کی ہے۔ شنکر کی ترجمانی سریانی اتحادی ہے اور رامانج کی ترجمانی میں وحدانیت کا رنگ پایا جاتا ہے۔

ویدانت سوتر کے چار باب ہیں جن میں برہم ودیا (برہمن کی معرفت کا علم) کے حصول کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ اس کی رو سے برہمن تمام کائنات میں طاری و ساری ہے۔ وہ عالم کی مادی علت بھی ہے اور فاعلی بھی۔ کائنات برہمن اور برہمن کائنات ہے۔ کائنات برہمن سے ایسے پیدا ہوئی جیسے آگ سے حرارت پیدا ہوتی ہے۔ تکوین عالم خود برہمن کی اپنی ذات کے اندرون سے ہوئی، جیسے حرارت آگ کے اندرون سے پیدا ہوتی ہے۔ ظاہری عالم مایا ہے، فریب ادراک ہے۔ نمود بے بود ہے، سراب ہے۔

ترشنا (پیاس، خواہش) کے تحت روح سمجھتی ہے کہ وہ اس کا ادراک کر سکتی ہے۔ لیکن یہ اودّیا (جہالت) کا نتیجہ ہے۔ حقیقت معلوم ہونے پر فریب ادراک رفع ہو جاتا ہے۔ حسیات غلط فہمیوں کا باعث ہوتی ہیں اور رسی کو سانپ سمجھ لیتی ہیں۔

شنکر گووند کا شاگرد تھا۔ اس کی اودیتا (دو نہ ہونا) یا احدیت (Monism) منطقی استدلال پر مبنی ہے۔ شنکر نے مایا کے تصور کو ویدانت کا اصل اصول قرار دیا اور کہا کہ اودّیا کے باعث آتما سنسار چکر میں پھنس جاتی ہے اور دکھ بھوگتی ہے۔ اودّیا کو دور کرنے سے وہ دکھ سے نجات پا لیتی ہے۔ اس کے خیال میں وہی شخص نجات (موکش) پر قادر ہو سکتا ہے جو برہمن اور آتما کی وحدت نوعی کا عرفان حاصل کر لیتا ہے۔ انفرادیت کرم (عمل) کا ثمرہ ہے اور کرم اودّیا (جہالت) کا حاصل ہے۔ ظواہر عالم ہمارے فریب حواس کی تخلیق ہیں۔ موکش آتما کو برہمن سے متحد کرنے ہی سے ممکن ہو سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ترک علائق، زاویہ نشینی اور رہبانیت ضروری ہے اور عقلی استدلال کی بجائے دھیان (مراقبہ) زیادہ مفید مطلب ثابت ہوتا ہے۔ جس شخص پر یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ تمت توم اسی (تو وہ ہے) وہ جان لیتا ہے کہ اہم برہم اسی (میں خدا ہوں) اور اسے تمکین (شانتی) میسر آ جاتی ہے۔ یہ اودیتیم یا کامل احدیث ہے۔

ہندوستان کے صوفیہ پر ویدانت کے گہرے اثرات ہوئے۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ مقبولیت صوفیہ چشتیہ کی تعلیمات کو ہوئی کیوں کہ ان کے وحدۃ الوجود اور ویدانت کے اودیتم اساسی طور پر ایک تھے۔ البیرونی نے اس فکری وحدت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ دارا شکوہ نے اپنشدوں کا ترجمہ فارسی زبان میں کرایا اور وجودی عقائد کی تطبیق اودیتم سے کرنے کی کوشش کی۔ شستری اس تاثیر و تاثر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ویدانت اور تصوف میں مندرجہ ذیل باتوں کا اشتراک ہے:

1۔ دونوں حبس دم (پرانا یام) کرتے ہیں۔

2۔ دونوں دھیان (مراقبہ) کرتے ہیں۔

3۔ دونوں گرو (مرشد) کی خدمت کو اہم سمجھتے ہیں۔

4۔ دونوں تپ (ریاضت) اور فاقہ کرتے ہیں۔

5۔ دونوں مالا (تسبیح) جپتے ہیں اور ذکر اذکار میں محو رہتے ہیں۔

6۔ دونوں انسانی آتما (روح) کے برہمن (وجود مطلق) میں جذب و اتحاد کے قائل ہیں۔

7۔ دونوں دوسرے مذاہب کے پیروؤں سے رواداری کا سلوک کرتے ہیں۔

بھگتی کی تحریک صوفیہ اور ویدانتوں کے اشتراکِ احساس و فکر کا سب سے روشن ثبوت ہے۔ بھگتی (عشقِ حقیقی) کی اس تحریک نے گووند، سورداس، میراں، چنڈی داس وغیرہ کی شاعری کو ذوقی فیضان بخشا تھا۔

بھگت شاعروں کے کلام میں رادھا (آتما) جس وارفتگی اور سپردگی سے کرشن (برہمن) کے گیت گاتی ہے اسی والہانہ اضطراب سے خواجہ غلام فرید کی کافیوں میں سسی (روح) اپنے پنوں (محبوبِ ازلی) کے فراق میں نالہ کناں ہے۔

تصریحات مندرجہ بالا کا حاصل یہ ہے کہ صوفیہ نے فلاسفۂ یونان سے لوگس کا تصور لیا جو منصور حلاج کے هُوَ هُوَ، ابن عربی کی حقیقتِ محمدیہ، قطب الاقطاب، الجيلی کے انسانِ کامل اور مجددیہ کے قیم کی صورت میں بار بار ابھرتا رہا۔ پارمی نائدیس کا وجود اور افلاطون کی حقیقی اور ظاہری عالم کی دوئی، حسنِ ازل اور عشقِ حقیقی کا تصور، فیثاغورس کا مادے کو شر کا مبداء سمجھنے کا خیال، نواشراقیت (Neoplatonism) کے واسطے سے تصوف میں داخل ہوا۔ فلاطینوس (Plotinus) سے کامل احدیت، فصل و جذب، تجلی و اشراق، عقول و نفوس، تنزل و صعود، اشراق و کشف اور عقل پر وجدان کی فوقیت کے تصورات لیے گئے۔ مجوسیوں کا نظریۂ نور شیخ الاشراق کے واسطے سے تصوف میں شامل ہوا۔ بدھ مت اور مانویت سے رہبانیت، زاویہ نشینی، نفس کشی، نفی خودی، قبر پرستی، تبرکات پرستی، گرو اور چیلے کا ادارہ اور مالا جپنے کا طریقہ لیا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ تصوف کی الٰہیات و اخلاقیات اور مذہب کی الٰہیات و اخلاقیات میں کیا فرق ہے۔ یاد رہے کہ اخلاقیات لازماً متعلقہ الٰہیات ہی سے متفرع ہوتی ہے۔

تصوف کی الٰہیات و اخلاقیات مذہب کی الٰہیات و اخلاقیات
1۔ ذاتِ بحت، برہمن، حقیقتِ کبریٰ یا تاؤ کائنات میں طاری و ساری ہے۔ اسے کائنات سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ 1۔ خدا، یہواہ، ایشور یا شان گنی کائنات سے ماوراء ہے، علیحدہ ہے۔
2۔ ذاتِ بحت غیر شخصی ہے۔  2۔ خدا شخصی ہے۔
3۔ کائنات کا ذاتِ بحت سے اس طرح صدور ہوا جیسے آفتاب سے شعاعیں صادر ہوتی ہیں۔ 3۔ خدا نے کائنات کو عدم سے تخلیق کیا۔
4۔ مادہ ذاتِ بحت سے علیحدہ موجود نہیں ہے۔  4۔ مادہ خدا سے علیحدہ موجود ہے۔
5۔ روحِ انسانی یا آتما، برہمن یا روحِ کل کا جزو ہے جو مادے کی قید میں اسیر ہے۔ وہ معرفتِ نفس حاصل کر کے دوبارہ اپنے ماخذِ حقیقی میں جذب ہو جاتی ہے۔ 5۔ روحِ انسانی خدا کی مخلوق ہے۔ موت کے بعد روح اپنا مستقل وجود برقرار رکھتی ہے۔
 6۔ جنت دوزخ یا سورگ اور نرک مذہبی مفہوم میں موجود نہیں ہے۔ انسانی روح کا ارتقاء فنا فی اللہ پر ختم ہو جاتا ہے۔ 6۔ جنت دوزخ ظاہری مفہوم میں موجود ہیں۔ انسان اپنے اعمال کی رعایت سے ان میں جائے گا۔
7۔ ماده شر کا مبداء ہے اس لیے طالبِ حق تمام مادی اشیاء سے نفور ہوتا ہے۔ 7۔ ماده شر کا ماخذ نہیں ہے۔ مادی لذائذ سے متمتع ہونا جائز ہے۔
8۔ حقیقت باطنی ہے، اہلِ ظاہر اسے نہیں پا سکتے۔ 8۔ شریعت ظاہر ہے اس کا کوئی باطن نہیں ہے۔
9۔ انسان مجبور محض ہے۔ 9۔ انسان فاعلِ مختار ہے۔ اسی قدر و اختیار کے باعث وہ سزا و جزا کا مستحق و مستوجب ہوتا ہے۔
10۔ حسنِ ازل سے عشق کر کے انسان نفی خودی اور فنا فی المحبوب پر قادر ہوتا ہے۔ 10۔ نیک اعمال کے لیے خوفِ خدا ضروری ہے۔ خدا کو انسان کی اطاعت اور بندگی چاہئے، وہ اس کے عشق سے بے نیاز ہے۔
11۔ وقت کی گردش دو لابی ہے۔ کائنات کا نہ آغاز ہے نہ انجام ہوگا۔ 11۔ وقت کی حرکت مستقیم ہے۔ کائنات کا آغاز بھی ہوا اور انجام بھی ہوگا۔
12۔ انسانی کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ وہ روح کو مادے کے شر اور آلودگی سے نجات دلائے۔ اس کے لیے نفی خودی، نفس کشی، فاقہ، مراقبہ، استغراق اور تزکیہ نفس ضروری ہیں۔ پاک باطن کے بغیر ظاہری اعمال بے مصرف ہیں۔ 12۔ انسانی کوششوں کا مقصد واحد یہ ہے کہ شرعی احکام کی پابندی کر کے خدا کی رضا حاصل کی جائے تا کہ موت کے بعد جنت یا سورگ میسر آ جائے۔ جو شخص شرعی احکام کی ظاہری پابندی کرتا ہے وہ نیک ہے اور نجات کا مستحق ہے۔ ظاہری نیک اعمال داخلی نیکی کے شواہد ہیں۔

ظاہر ہے کہ مذہب کی الٰہیات و اخلاقیات اور تصوف کی الٰہیات و اخلاقیات میں بعد المشرقین ہے۔ تصوف ایک مستقل نظام فکر و عمل ہے جسے مذہب کا جز نہیں سمجھا جا سکتا۔ نظرِ غور سے دیکھا جائے تو مفہوم ہوگا کہ تصوف مذہب سے زیادہ فلسفے سے قرین ہے۔ وجودِ مطلق اور ذاتِ بحت کے تصورات یونانی مثالیت سے ماخوذ ہیں۔ مثالیت پسندوں اور صوفیوں میں شروع ہی سے اتحادِ فکر و نظر رہا ہے۔ دونوں میں فرق محض یہ ہے کہ مثالیت سراسر نظریاتی اور عقلیاتی ہے جس میں وجودِ مطلق کے اثبات کے لیے منطقی دلائل دیئے جاتے ہیں۔ جبکہ تصوف ذاتِ احد یا وجودِ مطلق کے ساتھ ذوقی و قلبی اتحاد و اتصال قائم کرنے کا نام ہے۔ فیثاغورس، پارمی نائدیس اور افلاطون سے لے کر لائب نیز، شوپنہائر، شیلنگ، ہیگل، برگساں اور وائٹ ہیڈ تک مثالیت پسندوں نے کسی نہ کسی صورت میں کائنات کو باشعور مانا ہے۔ اور اس شعور کو سریانی سمجھا ہے۔ صوفیہ بھی اسی ہمہ گیر کائناتی شعور میں کھو جانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔

 ***

مآخذ:

سید علی عباس جلالپوری، "عام فکری مغالطے"، صفحات 93 تا 118، تخلیقات، لاہور، 2013ء۔

سید علی عباس جلالپوری گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے استاد تھے۔ انہوں نے فلسفہ، مذہب اور تاریخ سے متعلق 14 کتب تحریر کی ہیں جنہیں علمی حلقے فلسفے میں سنجیدہ کام قرار دیتے ہیں۔ علی عباس جلالپوری کو پاکستان کا ول ڈیورانٹ بھی کہا جاتا ہے۔