ریاست مدینہ کا تصور

ریاست مدینہ کا تصور
تحریر: (ارشد سلہری) وزیراعظم عمران خان نے نیا پاکستان کے لیے ریاست مدینہ کا تصور دیا ہے۔ جس سے عمران خان کی اپنی جماعت اور رفقاء کار بھی نابلد ہیں اور اکثر بے پر کی اڑاتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب ناقدین اور سیاسی مخالفین ریاست مدینہ کے تصور کو ایک خاص طہارت سے دیکھتے ہیں اور خیالوں کے گھوڑے دوڑا کر چودہ سو سال والی مدینہ منورہ کی پاکیزہ ریاست کا تصور باندھ کر عمران خان کے کرتوت پر طبع آزمائی شروع کردیتے ہیں۔

مذہبی جماعتوں کے لوگ یہ سمجھتے ہوئے عمران خان پر لعن طعن کرتے ہیں کہ ریاست مدینہ کی بات کرنا تو ہمارا فرض منصبی ہے۔ ریاست مدینہ کے تصور کو لے کر عمران خان کے ذاتی کردار سمیت وضع قطع کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے کہ یہ منہ اور مسور کی دال۔ کہاں ریاست مدینہ کا تصور اور کہاں عمران خان اور یوتھیا پارٹی، بات کرتے ہوئے بندہ سوچ بھی لیتا ہے۔

عمران خان کے مطابق شاید ریاست مدینہ کا تصور قانون سب کے لیے یعنی ون لا فار آل، مطلب قانون کی حکمرانی ہو گی۔ ریاست کا کردار حقیقی ماں جیسا ہو گا، میرٹ کی بالادستی ہو گی۔ ریاست اپنے باشندوں کی بنیادی انسانی ضروریات کی ذمہ دار ہو گی۔ حکمران طبقات بطور خادمین ریاستی کے امور سر انجام دیں گے۔ کہنے کو ریاست مدینہ کا یہ تصور بہت خوبصورت ہے مگر عملی طور پر ابھی تک عمران خان اپنے اس تصور کے کوئی خدوخال واضح کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ بزرگوں کو کہتے سنا ہے کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں ہیں۔ عمران خان نے سچ کر دیکھایا ہے۔

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

چیرا تو ایک قطرہ خون بھی نہ نکلا

عمران خان الیکشن سے قبل بھی بہت بلند بانگ دعوے کرتے رہے ہیں۔ جس سے عوام کے اندر ایک بڑی امید نے جنم لیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان اپنے ایک سالہ اقتدار میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان عوام کی امیدوں کو پورا کرنے کے لیے تاحال کوئی جامع حکمت عملی اور روڈ میپ یا فریم ورک نہیں دے سکے، جس کے باعث عوام میں مایوسی اور بددلی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ عوام کے اجتماعی شعور نے اظہار کرنا شروع کردیا ہے کہ عمران خان کے پاس سوائے باتوں کے اور کوئی وژن اور منصوبہ نہیں ہے۔ عمران خان بھی سابق حکمرانوں کی طرح صرف ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر گامزن ہیں۔

ریاست مدینہ کے تصور کو عملی جامہ پہنانا تو دور کی بات ہے مذکور اپنے اس تصور کو اجاگر کرنے میں بھی کنفیوژ نظر آتے ہیں۔ عمران خان کی باتوں سے یہ نظر آتا ہے کہ خیالات اچھے ہیں۔ نیت بھی ٹھیک ہے مگر صرف باتوں کی حد تک ہے۔ موصوف ہوم ورک نہیں کرتے ہیں۔ عملی طور پر جب آگے بڑھتے ہیں تو بری طرح فلاپ ہوجاتے ہیں۔ جس کی اہم وجہ ماہرین کی مستند اور متحرک ٹیم کا فقدان ہے۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست مدینہ کے تصور کو عملی شکل دینے کے لیے اعلیٰ اذہان اور ماہرین پر مشتمل ایک قومی کونسل برائے ریاست مدینہ قائم کی جائے جو ریاست مدینہ کے تصور پر اپنی سفارشات مرتب کرے اور عوام میں بھی اس تصور کی حقیقی تصویر پیش کرے، تاکہ عام عوام سمجھ سکیں کہ ریاست مدینہ کا تصور بنیادی طور پر ہے کیا اور عمران خان کی ریاست مدینہ شریعہ کی بنیاد پر ہوگی یا اصولوں کی بنیاد پر ہوگی۔ خاص کر غریب عوام کے لئے ریاست مدینہ میں کیا کشش ہو سکتی ہے اور اسلام پسند طبقات کس حد تک قبول کرتے ہیں۔ پاکستان میں اسلام پسندوں کی بھی اپنی اپنی مذہبی سوچ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام طبقات کے لیے قابل قبول خدوخال واضح کیے جائیں۔ ریاست مدینہ کے لیے تجویز کردہ کونسل میں علماء حق اور دیگر طبقات کے ماہر بھی شامل کر لیے جائیں تو شاید ایک جامع اور جدید ڈرافٹ تیار کیا جاسکے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔