نواز شریف کی وطن واپسی کے اعلان کے بعد سے قائد ن لیگ کے لائحہ عمل کے بارے میں قیاس آرائیاں عروج پر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق نواز شریف کی قیام گاہ لندن میں گذشتہ ہفتہ مصروفیت معمول سے کچھ زیادہ تھی۔ اس دوران نواز شریف کی وطن واپسی اور بعد کے حالات پر غور و خوض کے لئے متعدد بیٹھکیں ہوئیں۔ نواز شریف نے خود طویل ملاقاتیں کیں، جن میں اپنے اہم ترین مشیران کے ساتھ فیس ٹائم ملاقاتیں بھی شامل تھیں۔ سب سے بڑے سوال جو اس دوران زیر غور رہے وہ یہ تھے کہ آیا نواز شریف کو پاکستان آنا چاہیے یا نہیں اور یہ بھی کہ ایک ایسا اصلاحاتی پروگرام جس سے عام آدمی کو فائدہ پہنچایا جا سکے اس سے متعلق ضمانتیں کیسے حاصل کی جا سکتی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے نقطہ نظر سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ نواز شریف کی پاکستان واپسی پارٹی کے انتخابی امکانات کو بڑھانے کے لئے ناگزیر ہے۔ عمران خان کے علاوہ اب وہی ملک کے سب سے سینیئر سیاست دان اور مرکزی دھارے کے واحد قومی رہنما ہیں، انتخابی مہم میں ان کی شرکت کے بغیر مسلم لیگ ن کے انتخابی امکانات انتہائی مخدوش ہیں۔ جن بدنام زمانہ 5 کرداروں نے نواز شریف کی حکومت ختم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنانے سے لے کر 2013 سے 2018 کے مابین مسلم لیگ ن کی کامیابیوں کو اجاگر کرنے تک، نواز شریف دونوں بیانیوں کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔ پارٹی کا چارج سنبھالیں گے تو ہی وہ پنجاب میں الیکٹ ایبلز کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں گے، پارٹی کے ڈھانچے کو ازسر نو منظم کرنے کی کوئی سبیل ممکن بنا سکیں گے اور ٹکٹوں کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔ جیسا کہ مسلم لیگ ن کے اندرونی ذرائع خود کہتے ہیں، 'نواز شریف کی واپسی کے بغیر انتخابی امکانات اچھے نہیں نظر آ رہے'۔
تاہم جہاں نواز شریف کی واپسی ن لیگ کے ووٹرز کو پھر سے متحرک کر سکتی ہے، اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ شہری اور دیہی متوسط طبقے کی اکثریت اور ملک کے مایوس نوجوانوں کو وہ اپنے ساتھ ملا سکیں گے۔ یہ معاملہ گہری تشویش کا سبب ہے کیونکہ پاکستان میں ووٹرز کی ایک اچھی خاصی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے، 18 سے 35 سال کے بیچ کے ووٹر لگ بھگ 5 کروڑ 38 لاکھ بنتے ہیں اور کل رجسٹرڈ ووٹرز کا سب سے بڑا حصہ یعنی 44 فیصد یہی نوجوان ووٹرز ہیں۔ قائد ن لیگ کے قریبی حلقوں نے تصدیق کی ہے کہ اس معاملے پر ٹھیک ٹھاک بحث مباحثہ ہوا ہے۔ پاکستان کو جس بڑے پیمانے پر معاشی اور سیاسی بحران کا سامنا ہے اس کا حل پاکستان کی اشرافیہ کے ساتھ کیے گئے خاموش معاہدے کو نئے سرے سے مرتب کیے بغیر نہیں نکل سکتا کیونکہ یہی معاہدہ پاکستان کی معاشی اور سیاسی حالت کا ذمہ دار ہے۔ ایک ایسا سیاسی اور معاشی نظام جو عام پاکستانی کو کوئی ریلیف نہیں دے پا رہا، اس میں تبدیلی کا جامع منصوبہ پیش کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ طبقہ اشرافیہ کے ساتھ ریاست کے اس معاہدے کو نئے سرے سے ترتیب دینے کے لئے ضروری ہو گا کہ فوجیوں، صنعت کاروں اور سیاست دانوں پر مشتمل اشرافیہ کو اپنی مراعات کم کرنے پر آمادہ کیا جائے۔
مثال کے طور پر بھارت کے ساتھ خارجہ پالیسی کا معاملہ لے لیں۔ نواز شریف نے 1999 اور 2014 دونوں میں بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی بات کی تھی۔ دونوں مرتبہ ان کا منصوبہ یہی تھا کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں کو پاکستان کے رستے آپس میں منسلک کیا جائے۔ دونوں مواقع پر نواز شریف کی مذکورہ کوششوں کا راستہ پاکستان کی ہمہ وقت نفسیاتی خوف کا شکار سکیورٹی سٹیٹ نے روک دیا۔ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو شاید بھارت کے ساتھ تجارت کی ضرورت کا ادراک ہو چکا ہو، لیکن اب بھی ان کی جانب سے مزاحمت کے امکانات باقی ہیں۔ ایک ایسے ملک پر انحصار کرنا جسے پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اپنے لئے وجودی خطرہ گردانتی ہو، ادارے کے اندر بھی کئی لوگوں کے کان کھڑے کر دے گا۔ توقع ہے کہ سستی درآمدات شروع ہونے کے باعث اپنے منافع میں کمی آتے دیکھ کر پاکستان کا کاروباری طبقہ بھی چیخ اٹھے گا۔
نواز شریف کے پلان میں بہرحال بھارت کے ساتھ تعلقات ایک اہم حصہ ہیں۔ تجارت کے لئے سرحدیں کھول دینے سے ٹرانزٹ اکانومی کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے۔ بھارت، افغانستان اور چین کے مابین پاکستان کو تجارت کا محور بنانے سے اہم اقتصادی مواقع پیدا ہو سکتے ہیں اور پاکستان ایک علاقائی تجارتی مرکز کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، مسابقتی مفاد مقامی کاروباریوں کو خطے کی سطح پر مسابقتی دوڑ میں شامل ہونے کی ترغیب دے گا۔ اس منصوبے پر عمل درآمد بھی اسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر عسکری اور صنعت کار طبقہ اپنی مراعات کم کرنے پر آمادہ ہو جائے لیکن اپنی مراعات یافتہ حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے یہ دونوں طبقے سٹیٹس کو میں تبدیلی کی مزاحمت کریں گے۔
اگلا سوال معیشت کا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ہونے والے لگاتار معاہدوں کے نتیجے میں ملک کے تنخواہ دار اور متوسط طبقے کو مہنگائی کے جس طوفان اور تباہی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ٹیکسوں کا غیر مساوی نظام اس بوجھ میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ اسے کہتے ہیں جلتی پر تیل چھڑکنا۔ آمدنی کا سکڑنا، بڑھتی عدم مساوات اور بے قابو ہوئی مہنگائی نے سیاسی معیشت کی کمزوریوں کو آشکار کر دیا ہے جس پر طبقہ اشرافیہ کا غلبہ ہے۔ جہاں ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تجارت کو کھولنا ملکی معیشت کی بحالی کی کلید ہے، وہیں یہ اقدام ملک کی صنعتی اور سیاسی اشرافیہ کے گہرے مفادات کو نقصان پہنچاسکتا ہے اور یہی مفادات تمام پاکستانیوں کے لئے معیشت کی بحالی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ محصولات کے دائرہ کار کو وسیع کرنا، زرعی آمدن پر ٹیکس عائد کرنا اور ریئل سٹیٹ میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی وہ تمام اہداف ہیں جن کا حصول ازحد ضروری ہے۔
تاہم، ان میں سے ہر ہدف اپنی جگہ پر ایک چیلنج ہے۔ دیہی سندھ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والا سیاسی طبقہ جو کہ زیادہ تر دولت مند الیکٹ ایبلز پر مشتمل ہے، زرعی آمدنی کو ٹیکس سے مستثنیٰ رکھنے کے لئے لابنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ نسبتاً مستحکم اور محفوظ شعبے کو بدستور ٹیکس میں چھوٹ سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دیتے رہنا اب ناقابل عمل ہو چکا ہے۔ مزید براں ٹیکسٹائل اور چینی کی مال دار لیکن غیر مسابقتی صنعتیں بڑے پیمانے پر برآمدات پر ملنے والی سبسڈیز پر انحصار کرتی ہیں جب کہ ان سبسڈیز کو معاشی طور پر محتاط مقاصد کے لئے نئے سرے سے مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ سبسڈیز کو اہم صنعتوں تک محدود کر دینے سے طبقہ اشرافیہ کے مابین پائے جانے والے اتفاق رائے میں موجود خامیاں جو ان کے سیاسی اور مالی فوائد سے متعلق ہیں، سامنے آ جائیں گی۔ محصولات کے دائرہ کار کو وسعت دینا ایک ایسا شعبہ ہے جس میں مسلم لیگ ن نے اپنے آخری دور حکومت 2013 سے 2018 کے دوران کامیابی حاصل کی تھی اور اس وقت تک کا ریکارڈ انکم ٹیکس اکٹھا کیا تھا۔ ٹیکس نیٹ بڑھانا ایف بی آر کی حوصلہ افزائی کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا تاکہ وہ پورے پنجاب کے روایتی ہول سیل اور ریٹیل بازاروں سے تعلق رکھنے والے چھوٹے کاروباری طبقے، تاجروں اور کاروباری مالکان کو انکم ٹیکس قوانین کی پابندی پر آمادہ کر سکے۔
اصلاحات متعارف کروانے کے لئے ایف بی آر کے اندر اہم تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہو گی۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ کام کرنے کے قابل آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ جو زیادہ تر تنخواہ دار طبقے پر مشتمل ہے بس وہی انکم ٹیکس جمع کرواتا ہے، بیوروکریسی کی نااہلی کی عکاسی ہوتی ہے جس کے باعث ملک کو معاشی بدحالی کا سامنا ہے۔ معیشت کو درست سمت میں ڈالنے کے لئے مطلوبہ ہر ادارہ جاتی اصلاح پر نواز شریف کو اس مسابقتی دھڑے کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا فائدہ ہی ان اصلاحات کو روکنے اور سٹیس کو کو برقرار رکھنے میں ہے۔ لیکن پاکستان کے معاشی ڈھانچے کی تباہی نے اس ضرورت پر زور دیا ہے کہ عسکری اور صنعتی اشرافیہ کو ملنے والی مراعات کو کم کیا جائے۔ اسی صورت میں وہ ایسا انتخابی ایجنڈا پیش کر سکیں گے جو اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ عام آدمی اپنے لئے روٹی، کپڑا اور مکان حاصل کر سکے۔ اور یہ معاملہ مسلم لیگ ن کے سرکردہ رہنماؤں کے مابین موضوع بحث ہے۔
آخر میں انتہائی اہم معاملہ ہے سیاست کا۔ تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والی شخصیت کی جانب سے جبری گمشدگیوں اور 9 مئی کے واقعات کے بعد ایک ظالمانہ کریک ڈاؤن سے متعلق خاموش رہنا اچھا پیغام نہیں دیتا۔ یہ سچ ہے کہ نواز شریف نے اپنے قریبی مشیران کے سامنے ہائی پروفائل مسنگ پرسنز سے متعلق گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، مگر یہ بھی نہیں بھلایا جا سکتا کہ پروجیکٹ عمران خان کو کامیاب بنانے کے لئے نواز شریف کی اپنی جماعت کے کئی ساتھیوں کو ٹارگٹڈ احتساب کا نشانہ بنایا گیا اور لمبے عرصے تک جیل میں بھی رکھا گیا۔ نواز شریف کو ریاست کی جانب سے تمام سیاسی رہنماؤں کے خلاف روا رکھے جانے والے مظالم کے خلاف بولنا ہوگا۔ آزادی اظہار اور انسانی حقوق کے لئے غیر متزلزل وابستگی کے بغیر ممکن نہیں کہ حق رائے دہی سے محروم ہوتی سول سوسائٹی اور باخبر نوجوانوں کو اعتماد میں لیا جا سکے۔
نواز شریف کی ملک واپسی کی تاریخ 15 اکتوبر بتائی جا رہی ہے، اب سے لے کر اس تاریخ تک بہت سے رخنے سامنے آ سکتے ہیں۔ اور ان میں سے ایک رخنہ نواز شریف کا یہ مطالبہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک ایسی سیاسی فضا کا مطالبہ کریں جو ان کے ایجنڈے کو نافذ العمل بنانے میں سازگار ثابت ہو۔
***
عمر اظہر بھٹی کا یہ تجزیہ The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔