فوجی اسٹیبلشمنٹ، لاڈلوں کی ادلا بدلی اور بلوچ مظاہرین کی امیدیں

عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ فوج اگر آئندہ سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا حلفیہ اعلان بھی کرے تو نہ جانے کیوں یہ اعلان سن کر شہریوں کو بے ساختہ ہنسی آنے لگتی ہے۔ اسی طرح اگر جبری گمشدگیوں کے بارے میں لاتعلقی ظاہر کی جائے تو لاپتہ افراد کے ورثا اسے کسی صورت سچ تسلیم نہیں کریں گے۔

فوجی اسٹیبلشمنٹ، لاڈلوں کی ادلا بدلی اور بلوچ مظاہرین کی امیدیں

ظلم و جبر کے خلاف، اپنے پیاروں کی تلاش میں بلوچ عورتیں 6 دسمبر کو تربت سے اس امید کے ساتھ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئیں کہ شاید بچوں اور بوڑھی عورتوں کو دیکھ کر اسلام آباد اور راولپنڈی کے مکینوں کے دل پگھل جائیں، جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تھم جائے اور لاپتہ افراد کا کچھ پتہ چل جائے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ ناامیدی میں بھی پرامید رہنا کوئی ان عورتوں سے سیکھے جو یہ سب جاننے کے باوجود کہ جن کے سامنے وہ احتجاج ریکارڈ کرانے جا رہی ہیں، وہ سینے میں دل تو رکھتے ہیں مگر پتھر کا لہٰذا شنوائی کا کوئی آسرا نہیں، پھر بھی اسلام آباد پہنچیں۔

شعوری اور لاشعوری طور پر ہم ایسی خبروں کو پڑھنا پسند کرتے ہیں، جو ہماری سوچ کی عکاس ہوں اور پہلے سے موجود رویوں کی تائید کرتی ہوں۔ جبکہ ایسی خبروں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرتے ہیں جو ہمارے نظریات اور پہلے سے قائم شدہ رائے کو چیلنج کرتی ہوں۔

پاکستان میں نیوز چینلز کی بہتات کے باوجود بلوچ یکجہتی مارچ اسلام آباد پہنچنے سے قبل ٹی وی سکرینوں سے غائب رہا۔ میڈیا بلیک آؤٹ کے باوجود بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سرگرمیوں کے حوالے سے خبریں تلاش کر کے پڑھنا ہمارے selective exposure کی غمازی کرتا ہے لہٰذا آپ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اس ایکسپوژر کی وجہ سے میں یہ ریاستی بیانیہ خریدنے سے قاصر ہوں کہ بزرگ خواتین، بچوں اور نوجوان لڑکیوں پر مشتمل بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا اسلام آباد کے امن و امان کے لیے خطرہ ہیں یا وہ کسی دشمن ملک کے ایجنٹ وغیرہ ہیں۔

سوچا تھا سوڈان کے بحران پر لکھوں گا کہ کیسے دو جرنیلوں کے درمیان اقتدار کی لڑائی پہلے سے قبائل میں منقسم تباہ حال سوڈان کو مزید تباہ کر رہی ہے۔ گو کہ سوڈان کا معاملہ پاکستان سے مختلف ہے۔ وہاں براہ راست جرنیلوں کے درمیان اقتدار کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں کٹھ پتلیوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ پھر خیال آیا کہ سوڈان بہت دور ہے۔ کیوں نہ اس آگ کے بارے میں لکھا جائے جس کی تپش ہم بہت قریب سے محسوس کر رہے ہیں۔

گذشتہ برس مقتدرہ قوتیں اور ان کے مہرے آپس میں گتھم گتھا تھے۔ منصوبہ سازوں نے سوچا کہ محض ڈرانے دھمکانے سے معاملات نمٹ جائیں گے، الٹا مزید الجھا بیٹھے۔ جب انا آڑے آئے تو پھر 9 مئی جیسے واقعات سرزد ہو ہی جاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سینہ سپر رہنے والے اب اسی کے زیر عتاب ہیں۔ وہ نوجوان جو ریاستی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو غدار قرار دیا کرتے تھے، اب خود اسی پاداش میں غداروں کی فہرست میں شامل کر لیے گئے ہیں۔

کچھ نوجوان آج بھی سوشل میڈیا پر یہ دہائی دیتے نظر آتے ہیں کہ ان کے محبوب لیڈر عمران خان کو بلاوجہ نکالا گیا۔ اب ان نوجوانوں کو کوئی کیسے بتلائے کہ ان کا محبوب لیڈر بھی کبھی نادیدہ قوتوں کا محبوب رہا ہے اور وہ عاشق ہی کیا جو محبوب کو اپنے قدموں میں نہ لا سکے؟ ایمانداری سے بتائیں کہ جب عاشق بگڑتے ہیں تو پھر محبوب کو نیچا دکھانے کے لیے کیا کچھ نہیں کر گزرتے؟

نوجوانوں کا حافظہ کمزور ہے وگرنہ ان کے محبوب لیڈر سے پہلے ایک اور بھی محبوب تھا جس کا نام نواز شریف ہے۔ جسے 1993 میں پہلی مرتبہ برطرف کیا گیا۔ دوسری مرتبہ 1999 میں ہٹا کر جیل میں ڈالا گیا۔ جبکہ تیسری مرتبہ اسے 2017 میں ایک ساتھ تین طلاقیں دے کر ہمیشہ کے لیے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا گیا تا کہ نوجوانوں کے پسندیدہ رہنما کے لیے راہ ہموار کی جا سکے۔

جس بت کو بڑے چاؤ سے تراشا گیا ہو، اسے اتنی بے رحمی سے توڑ دیا جائے گا یہ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا۔

نوجوانوں کے لیڈر کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد تاجروں کے محبوب رہنما کو واپس لانے کے لیے پی ڈی ایم حکومت کی صورت میں 'حلالے' کا بندوبست کیا گیا۔ اب ایک بار پھر اسے اقتدار میں لانے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں۔

آج تحریک انصاف کے کارکنان 'معتوب' ہونے کی وجہ سے 'ہائبرڈ وار' لڑنے سے انکاری ہیں۔ کل ن لیگ کے کارکنان میاں صاحب کو اقتدار سے محروم کرنے پر نالاں تھے۔ آصف علی زرداری کی جانب سے قیادت سنبھالنے سے قبل پیپلز پارٹی کے کارکنان بھی ہمیشہ شکایت کرتے نظر آتے تھے۔ بھلا ہو زرداری صاحب کا کہ اب وہ راہ راست پر ہیں۔

پہلے فون کی سہولت اور بعد میں بڑھتے ہوئے بل سے تنگ آ کر الطاف حسین کے فون کی تار کاٹنے پر آج تک وہ اور ان کے چاہنے والے گہرے صدمے سے دوچار ہیں۔ قومی دھارے کی سیاست کرنے والی تقریباً سبھی جماعتوں کے ساتھ وقتاً فوقتاً ہاتھ کیا جاتا رہا ہے۔

اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی کسی پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ فوج اگر آئندہ سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا حلفیہ اعلان بھی کرے تو نہ جانے کیوں یہ اعلان سن کر شہریوں کو بے ساختہ ہنسی آنے لگتی ہے۔ اسی طرح اگر جبری گمشدگیوں کے بارے میں لاتعلقی ظاہر کی جائے تو لاپتہ افراد کے ورثا اسے کسی صورت سچ تسلیم نہیں کریں گے۔

فرض کریں آپ گھر کے بڑے ہیں اور گھر میں آپ پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں، سبھی آپ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوں اور گھر میں فساد کی جڑ قرار دیتے ہوں تو ایسے میں آپ کی کیا عزت رہ جاتی ہے؟ مزید عزت گنوانے سے بہتر نہیں کہ اپنی شخصیت اور اپنے کردار کا جائزہ لے کر اپنے دائرے میں رہنا سیکھ لیا جائے؟

اسد لاشاری فری لانس جرنلسٹ ہیں اور مختلف ویب سائٹس کے لئے لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ IBA یونیورسٹی سکھر کے میڈیا اینڈ کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں وزٹنگ لیکچرر بھی ہیں۔