تحریر: (کوثرعباس علوی) پہلے میں نے سوچا کہ یہ عرضی تھانیدار کے نام لکھوں گا کہ آپ کو کھلی چھوٹ دے، لیکن پھر سوچا کہ وہ تو صرف ایک تھانے کا انچارج ہے اور اس کے اوپر بھی کئی انچارج، ایسے بندے کو عرضی دینے کا بھلا فائدہ کیا ہو گا؟ غور کرنے کے لیے اپنے ہوٹل چلا گیا۔ ”اپنے ہوٹل“ سے مراد یہ نہیں ہے کہ میں کوئی ہوٹل چلاتا ہوں ۔ ہوٹل "چلاتا" شیدا ہے لیکن مالک میں ہوں جیسا کہ پاکستان چلانے والے اور ہیں لیکن مالک کوئی اور۔
ہوٹل جا کر سکون سے بیٹھ گیا، کام تو کوئی تھا نہیں، اس لیے مکمل اطمینان سے غورکرتا رہا کہ کس کی خدمت میں درخواست دائر کروں؟ پورے دس کپ چائے اڑانے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ خط آپ ہی کو لکھا جائے۔
چھرے مار بھائی !
آپ کو وہ زمانہ تو یاد ہو گا جب ٹی وی آن کریں یا اخبارات اٹھا لیں، ہر طرف تمہارا ہی چرچا تھا۔ ہر گلی، ہر چوک، ہر تھڑے اور ہر محفل کا موضوع سخن تم ہی ہوتے تھے، ایسی شہرت کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی تھی۔ تمہیں کوئی تمہیں چھری مار کہتا تو کوئی نقاب پوش، کوئی چاقو مار اور کوئی چاقوبردار، پھر ایک وقت آیا کہ تمہیں صفحہ اخبار سے ناپید ہو گئے لیکن آج کل پھر تمہارا ذکر سننے میں آ رہا ہے۔
میڈیا اس وقت تمہاری صرف منفی تصویر پیش کرتا رہا، وہ تمہیں ایک چھلاوے کے طور پر پیش کرتا رہا جو ایک موٹر سائیکل پر سوار ہو کر آتا اور کسی نقاب پوش عورت کو نشانہ بنا کر غائب ہو جاتا ۔ تمہیں عورتوں کا دشمن کہا گیا ۔ کل ہماری انجمن کا اجلاس ہواجس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ کہیں تم اسی پروپیگنڈے سے بددل ہو کرتو گوشہ گمانی میں نہیں چلے گئے تھے؟ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہاری حوصلہ افزائی کے لیے خط لکھا جائے تا کہ لوگوں کو تمہارے پازیٹوپہلو سے بھی واقفیت ہو۔
اے چھری مارمحسن! ہم کس منہ سے آپ کا شکریہ ادا کریں؟ ہم آپ کے احسانات کا بدلہ کبھی نہیں اتارسکیں گے۔ آج مہینے کی پندرہ تاریخ ہے اور ساری تنخواہ (عموما تنخواہ، لکھا جاتا ہے جو غلط ہے) اڑن چھو۔
مجھے یاد ہے ستائیس تاریخ تک بھی نصف تنخواہ باقی ہوتی تھی لیکن ایسا میری شادی کے پچیس سالوں میں صرف تین چار مہینے ہوا اور یہ وہی مہینے تھے جب تم ”ان ایکشن" تھے۔ جب بھی تنخوا ملتی، بیگم صاحبہ کا پیار بڑھنے لگتا تھا ۔ تنخواہ ملنے کے بعد پہلا اتوار میرے لیے بہت بھاری ہوتا تھا۔ پورا ہفتہ صبح سویرے اٹھنا، ناشتا تیار کرنا، تیار ہونا، بچوں کو سکول چھوڑنا اور پھر وقت پر آفس پہنچنا، سوچتا تھا کہ اتوار کو مزے سے دیر تک سوئیں گے لیکن واہ نصیبا! یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔ رات کو ہی وارننگ دے دی جاتی تھی کہ صبح شاپنگ کے لیے جانا ہے۔
شاپنگ مال میں جاتے ہی پتہ نہیں بیگم کو ایسے کیوں لگتا تھا کہ یہ چیز بھی گویا اس ہی کے لیے بنی ہے۔ جوں جوں پرس خالی ہوتا جاتا توں توں بیگم کا دل بھرتا جاتا۔ پرس کے خالی ہونے سے بیگم کے دل کا کیا تعلق ہے؟یہ ایک کیمسٹری ہے۔
بہرحال یہ سلسلہ تب تک چلتا رہتا جب تک ہمارے گھر سے تنخواہ نام کی چڑیا اڑنہ جاتی۔ لاکھ بار منع کیا کہ اتنے سارے کپڑے، زیور، جوتے اور میک اپ کا کرنا کیاہے؟ جواب ملتا”فلاں فلاں کے گھر منگنی کا فنکشن ہے، کس کس کے گھر میں شادی ہونا ہے، کہاں کہاں چالیسواں اور کہاں کہاں سنت ابراہیمی اداکی جانے والی ہے“۔ اس دوران آنکھ لگ جاتی تو وہ مجھے کہنی مار کے کہتیں ”اجی! سن رہے ہو؟“
کہتے ہیں کہ ہررات کا سویراضرورہوتا ہے۔ قسمت نے پلٹا کھایا،منظر نامے میں تم داخل ہوئے اور یہ سارے سلسلے رک گئے۔ میں اتوار کو خوب دن چڑھے تک سوتارہتا۔ میں حیران تھا کہ یہ تبدیلی کیونکر آئی ہے؟ پھر پتا چلا کہ اس کا سہرا تمہارے سے سجتاہے۔ پھر میں بیگم سے شاپنگ کا کہتا لیکن وہ کہتی ”شاپنگ!۔ کیوں؟ مروانا ہے مجھے؟ ان دنوں شہر میں ایک نقاب پوش چھری مار آیا ہوا جو حسین اور نوجوان عورتوں پر چاقو کا وار کر کے فرار ہو جاتا ہے، میں تو باہرنہیں جاؤں گی“۔ بیگم کی بات حقیقت تھی لیکن ”نوجوان“ کا لفظ ذرا عجیب سا لگا۔ جب یقین ہو گیا کہ بیگم اب باہر جانے والی نہیں تب سے میں بھی ایک فیاض اور سخی شوہر بن گیا جو ہر روز بیگم کو کہتا ہے کہ شاپنگ کے لیے جانا ہے لیکن ہرروز جواب ملتا”نہیں!“۔ یہ سب تمہاری بدولت واقع ہوا تھا اگر تم ایک سال بھی ایکشن میں رہتے تو اب تک لیا ہوا قرضہ بھی واپس کر دیا ہوتا بلکہ مجھے تو چارسال تک اپنا ذاتی گھر بھی تعمیر ہوتا ہوا نظر آرہا تھا لیکن پھر تم غائب ہو گئے اور سب خواب ریت میں مل گئے۔
اگر تم زندہ ہو تو ایک بار پھر انٹری مارو۔ تمہیں معلوم ہے اب تو تبدیلی سرکار نے مہنگائی کے میدان میں اتنے سکسر لگائے ہیں کہ ہماری بینڈ بجا دی ہے۔ تبدیلی سرکار پر تو بڑے لوگوں کا ہاتھ ہے۔ ہم اس کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے لیکن اپنی بیگم کی شاپنگ ، آؤٹنگ اور ہوٹلنگ سے تو جان چھوٹ سکتی ہے اور اس کے لیے تمہاری انٹری کی ضرورت ہے۔ خط کے ساتھ ہم تمہیں ایک اعلیٰ پائے کا چاقوبھی بھیج رہے ہیں۔
فقط: انجمن باہمی برائے شوہران ِمجبورستان