’باتیں ہماری سنیے گا‘

’باتیں ہماری سنیے گا‘
استاد محترم ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کی رحلت سے صرف ایک روز قبل معلوم ہوا کہ وہ بھی کرونا کا شکار ہو کر اسپتال میں داخل ہیں۔ خبر سنتے ہی دل کو دھڑکا لگ گیا کیونکہ میرے علم میں تھا کہ وہ ذیابیطس کے مریض تھے اور کچھ عرصہ قبل ایک ملاقات میں پتہ چلا کہ وہ گلے کی کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے ان کی آواز نحیف ہو گئی تھی۔ اگلے دن سو کر اٹھا تو واٹس ایپ پر اوپر نیچے ان کی رحلت کی اطلاع دی ہوئی تھی۔ دل بہت بوجھل سا ہو گیا اور بڑے عرصے کے بعد آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی رواں ہو گئی۔ پرانی یادیں ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے چلنے لگیں۔

پنجاب یونیورسٹی میں کچھ ’کامیاب انسان‘ قسم کے ڈپارٹمنٹ میں داخلہ چھوڑ کر ماس کمیونیکیشن میں داخلہ لینے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ میں ان لوگوں کو سامنے دیکھ پاؤں گا جو اخبارات میں لکھتے ہیں اور عام آدمی کے لئے دیوتا سامان ہیں۔ پہلے دن کلاس کے تیسرے پیریڈ میں ڈاکٹر صاحب سے سامنا ہوأ۔ حاضری رجسٹر کے حساب سے سب کو کھڑا کر کے تعارف لیا۔ چھٹے نمبر پر میری باری تھی۔ میں نے مسکراتے ہوئے اپنا تعارف کرایا تو بغور دیکھتے رہے۔ تعارف ختم ہونے پر مسکراتے ہوئے کہا بہت شرارتی ہو۔ خیر سے اسی ہوسٹل میں الاٹمنٹ ہوئی جس کے وہ وارڈن تھے، اسی وجہ سے انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بہت دوستوں کے نزدیک وہ اکھڑ مزاج تھے لیکن میرا تجربہ بالکل مختلف ہے۔ وہ امریکہ سے پڑھ کے آئے توابلاغیات کی جدید تعلیم کے ساتھ کچھ اصول و ضوابط بھی سیکھ کر آئے جنہیں انہوں نے بطور معلم، وارڈن اور بعدازاں بطور سربراہ ادارہ اپنے شاگردوں اور ادارہ میں داخل کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ شروع میں مشکلات ضرور پیش آئیں لیکن ڈاکٹر مغیث کب ہار ماننے والے تھے۔ پورے دو سال میں انہوں نے صرف تعارف کی خاطر حاضری رجسٹر کا استعمال کیا اور اس کے بعد کبھی کلاس میں حاضری نہ لگائی۔ ان کے بقول جس کو شوق ہو وہی پڑھنے آئے۔ حاضریاں پوری کرنے کی مجبوری سے آنے والے بیشک نہ آئیں ان کی حاضری لگتی رہے گی۔

ڈاکٹر صاحب بہت اچھے مقرر تھے اور ان کا یہ جادو دوران لیکچر ان کے علم کے ساتھ سر چڑھ کر بولتا۔ انگریزی ہو یا اردو لفظ موتیوں کی طرح ان کے منہ سے جھڑتے۔ معلوم ایسے ہوتا تھا جیسے ڈاکٹر صاحب امریکہ سے علم ابلاغیات کا سمندر اپنے سینے میں اتار لائے ہیں۔ دوران کلاس فقرے چست کرنے پر انہیں ملکہ حاصل تھا۔ جو طالب علم بھی یہ بتا دیتا کہ وہ روایتی لاہوری ناشتہ یا لسی پی کر آیا ہے یا کلاس میں سوتا ہوأ پایا جاتا تو ڈاکٹر صاحب کا خوراک کے ذریعے ہماری قومی سستی پر لیکچر سننے کے قابل ہوتا۔ غالبأ یہی وہ مشترکہ بات تھی جس کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب مجھے پسند کرنے لگ گئے کیونکہ میں دوران لیکچر ایسا لقمہ دیتا کہ سب ہنس پڑتے اور ڈاکٹر صاحب بھی ہمیشہ محظوظ ہوتے اور بعض اوقات تو جان بوجھ کر مجھے چھیڑ دیتے۔

بہت دوستوں کی طرح مجھے بھی زعم ہے کہ میں ان کا سب سے لاڈلا شاگرد تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے برملا کہا کہ میں اتنے عرصہ سے پڑھا رہا ہوں لیکن اس سے زیادہ ذہین شاگرد ابھی تک نہیں ملا اور ساتھ ہی کہہ ڈالا لیکن اس کا جرنلزم کینٹین پر ہوتا ہے، کلاس میں نہیں۔ میرے اور ڈاکٹر مغیث صاحب کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ وہ شاید ماضی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے منسلک رہے اور ہم جیسے لیفٹ کی سیاست کرتے یونیورسٹی میں پہنچے تھے لیکن انہوں نے کبھی اس نظریاتی اختلاف کو درخور اعتنا نہ جانا۔

گاڑی پر ڈپارٹمنٹ آتے اور اگر میں نظر آ جاتا تو گاڑی اوپر چڑھا کر ڈرانے کی کوشش ضرور کرتے۔ ایک تقریب میں ایم فل کے طالب علم نے ڈاکٹر صاحب کو ازراہ مذاق کہا کہ سر یہ آپ کے اتنا کیوں قریب ہے تو انہوں نے ترنت جواب دیا کہ یہ ایک بہت اچھا دشمن یا دوست ہو سکتا ہے، اس کے ہاں درمیانی راستہ کوئی نہیں۔ میں چونکہ کمزور آدمی ہوں اس لئے اس سے دوستی کر لی۔ میں نے فوراً استاد محترم کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر کہا سر گنہگار کر کے نہ ماریں۔ ہوسٹل کی ایک تقریب میں سلیم طاہر کے یہ اشعار میرے نام کر کے سنائے اور میلہ لوٹ لیا

ہمیں معلوم ہے کیا دست حنائی دے گا
فصل بوئیں گے وفا کی وہ جدائی دے گا
آنکھ نیلم بدن شیشہ اور دل پتھر کا
کون اپنے شاہکار میں اتنی صفائی دے گا

بطور وارڈن ہوسٹل بھی ان کے انداز اپنے ہم عصروں سے مختلف تھے۔ اپنے ہوسٹل کے طلبہ کو بہترین سہولیات فراہم کرنا اور وہاں صفائی ستھرائی کو بہترین توجہ دینا ان کا نصب العین معلوم ہوتا تھا۔ ہفتہ میں ایک دو دن ضرور ہوسٹل آتے اور زیادہ تر محترم ملک نصراللہ صاحب کے ساتھ گپ شپ کرتے نظر آتے۔ میں نے انہیں کبھی رات کو طالب علموں کے کمروں پر چھاپے مارتے نہیں دیکھا لیکن مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ وہ میرے کمرے میں دو تین دفعہ کافی پینے ضرور آئے یا ہوسٹل گیٹ سے ہی کافی یا چائے کا حکم جاری کر دیتے۔ یہ شرف بھی اسی خادم کو حاصل تھا کہ جب دل چاہا ان کے گھر چلا جاتا اور نفیس کراکری میں چائے پی کر گھر کی یاد تازہ کر لیتا۔ بعض لوگوں کے لئے یہ بات حیران کن ہو گی کہ استاد محترم منت سماجت کے باوجود ہمیشہ گیٹ تک رخصت کرنے آتے۔

ہوسٹل میں اچھے انتظامات کے حوالے سے وہ بہت فکر مند رہتے اور اس حوالے سے بہت سارے لطیفے بھی بنتے رہتے۔

ایک دن اطلاع ملی کہ ہوسٹل میں لا کالج کے طلبہ نے اس لئے کھانے کا بائیکاٹ کر دیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میس انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ کھانے میں گھی کی بجائے خوردنی تیل کا استعمال کریں۔ ظاہر ہے بہت مضحکہ خیز مطالبہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ہوسٹل کے طلبہ کو اکٹھا کر کے انتہائی پراثر تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ آپ کے والدین نے آپ لوگوں کو امانت کے طور پر میرے سپرد کیا ہے اس لئے میرا حق بنتا ہے کہ میں آپ کو صحت مند خوراک مہیا کروں جس کو یہ سب پسند نہیں وہ کسی اور ہوسٹل میں چلا جائے۔

انہوں نے ہوسٹل کے گراؤنڈ کو بہت صاف ستھرا رکھا ہوا تھا۔ ایک دن لڑکے وہاں بیٹھے مالٹے کھا کر وہاں چھلکے پھینک رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب گراؤنڈ میں پہنچے اور چھلکے خود اٹھانے شروع کر دیے۔ لڑکوں نے ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے رسانیت سے کہا، آپ کھاتے رہیں۔ یہ کام میرے ذمہ ہے۔ بس اس دن کے بعد کسی نے گراؤنڈ میں ایسی حرکت کی کوشش نہ کی۔ اس طرح ایک دن دھوبی کی دکان تین دنوں کے لئے اس وجہ سے بند ہو گئی کہ اس کی دکان کی میں مکڑی نے جالا بنایا ہوأ تھا۔ انہی اقدامات کی وجہ سے یہ ہوسٹل یونیورسٹی کا سب سے صاف ستھرا ہوسٹل تھا۔

دوران تعلیم اور بعد میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے نوکری کے لئے درجنوں سفارشی رقعے لکھ کر دیے۔ کئی لوگوں کو فون بھی کیا لیکن ایسا واقعہ بھی ہوأ جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کی طبیعت کو کس طرح جانتے تھے۔ ہوا یوں کہ ایک سرکاری ادارے میں اٹھارویں گریڈ کی عارضی نوکری کا اشتہار دیکھ کر میں نے بھی درخواست دے دی۔ عمر اور تجربہ بہت کم ہونے کی وجہ سے امید نہ تھی کہ مجھے بلایا جائے گا لیکن آٹھ شارٹ لسٹ امیدواروں میں اپنا نام بھی شامل تھا۔ جب انٹرویو کے لئے بورڈ کے سامنے پیش ہوا تو ڈاکٹر مغیث صاحب بھی بورڈ میں موجود تھے۔ مجھے دیکھ کر بڑے حیران ہوئے اور سب کو بتایا کہ یہ میرا لاڈلا شاگرد ہے۔

جب اس محکمے کے سیکرٹری نے ڈاکٹر مغیث صاحب کو یہ بتایا کہ مجھے آپ کا شاگرد بہت جونیئر ہونے کے باوجود پسند آیا ہے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا لیکن میں اسے پاس نہیں کروں گا۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح کی نوکری اس کا مزاج ہی نہیں۔ شام کو ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی اور انٹرویو کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے برملا کہا یہ کلرکوں والا کام کوئی اور کر لے گا۔ یہ نوکری آپ کے لئے نہیں ہے۔

یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر مغیث صاحب کی وفات تک پاکستان میں ان سے بڑا ابلاغیات کا ماہر کوئی نہیں تھا اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم قومی سطح پر ان کے معیار کا کوئی کام نہیں لے سکے۔ کچھ ہی عرصہ قبل ان سے سنٹرل پنجاب یونیورسٹی میں ملاقات ہوئی تو ایسے لگا جیسے ڈاکٹر صاحب کو نظر لگ گئی ہو۔ ان کا بہترین مقرر ہونا ان کے بہترین استاد ہونے کے لئے بہت مددگار تھا لیکن ان کی آواز بہت نحیف ہو گئی تھی بلکہ انہیں بولنے میں بھی تکلیف تھی۔ میرے اصرار پر برطانیہ سے آنے والے ایک ڈاکٹر کو دکھانے پر آمادگی ظاہر کی اور وقت لینے کا کہا لیکن جس دن کا وقت لیا، اس دن ڈاکٹر مغیث صاحب مصروف تھے اور بعد میں وہ ڈاکٹر صاحب باہر چلے گئے۔ اس کے بعد بھی دو دفعہ ان کے گھر جا کر سلام پیش کیا لیکن ان کی کمزور ہوتی آواز سے ہمیشہ دل کو ایک دھکا سا لگا۔ اسی لئے جب یہ سنا کہ وہ کرونا کا شکار ہو گئے تو دل بہت ڈر گیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب کرکٹ کے ساتھ ساتھ عمران خان کو بھی بہت پسند کرتے تھے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ عمران خان کی میڈیا پالیسی میں ان کا بہت عمل دخل تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی مایوس ہو رہے تھے۔ جب انہیں کرونا ہوا ہوگا تو مجھے یقین ہے کہ انہوں نے ضرور سوچا ہوگا کہ عمران تم سے اس حد تک نااہلی اور غفلت کی امید نہ تھی۔ آخرکار سب نے اللہ کے پاس جانا ہے لیکن ایک استاد اور محقق کا اس طرح چلے جانا نہ صرف ان کے شاگردوں بلکہ قوم کے لئے بھی المیہ ہے۔ دل سے بس یہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دوسرے اساتذہ ڈاکٹر اے آر خالد، ڈاکٹر مہدی حسن، ڈاکٹر مجاہد منصوری اور ڈاکٹر شفیق جالندھری کو صحت سلامتی دے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے۔