انقلاب، آزادی اور ترقی قومیں مل کر حاصل کیا کرتی ہیں۔ معاشی منصوبہ پوری قوم کا مشترکہ مسئلہ ہے لہذا سب کو مل کر اسے تیار کرنا ہوگا۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر ہمیں ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا جس میں سب برابری کی بنیاد پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
میں نے پہلے بھی اپنے کالمز میں عرض کیا ہے کہ قومی سطح پر ایک غیر جانبدار اور غیر سیاسی معاشی ماہرین کا بورڈ بنایا جائے جو پوری قوم سے تجاویز حاصل کرکے ان کی بنیاد پر حکومت کے لئے سفارشات ترتیب دے اور پھر وہ معاشی بورڈ اس منصوبے کی نگرانی بھی کرے اور قوم کو وقتاً فوقتاً اس بارے معلومات بھی فراہم کرتا رہے کہ آیا اشارے درست سمت بتا رہے ہیں۔
اس معاشی بورڈ کو اگر ممکن ہو تو آئینی حیثیت بھی دی جائے جو تمام سیاسی جماعتیں بلا تفریق انجام دے سکتی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے لہذا تجاویز اکٹھی کرنا کوئی مشکل کام نہیں اور اچھی تجاویز دینے والوں کو قومی سطح پر سراہا جانا چاہیے تاکہ ایک مثبت مقابلے کا ماحول بنے اور سب بڑھ چڑھ کر اس کار خیر میں حصہ لیں۔
عرض کیا تھا کہ روایتی منصوبہ بندی جو ستر سالوں سے چل رہی ہے جس کی بنیاد قرضوں اور ٹیکسز پر ہے، سے موجودہ معاشی بحران کا حل نکالنے کی امید لگانا وقت کا ضیاع ہوگا۔ ہمیں متبادل ذرائع اور حکمت عملی دیکھنا ہوگی اور اپنے قومی وسائل، اخراجات اور آمدن کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہوگی۔
ہمارے وسائل میں سب سے بڑا وسیلہ ہماری آبادی ہے۔ اس کو اثاثے کا درجہ دے کر اس کو تیار کرنا ہوگا اور موجودہ وقت کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے لہذا اپنے انسانی وسائل کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرکے ترقی کے باب کا بہتریں آغاز کیا جا سکتا ہے۔ تعلیم وتربیت کے لئے قومی مواصلات کے نظام سے مستفید ہوا جا سکتا ہے اور اس کو ہر طرح کی بنیاد کے لوگوں کے لئے ترتیب دیا جائے۔
اسی طرح بیرونی قرضوں کو کم اور ختم کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کو بروئے کار لاتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ مقروض قومیں کبھی بھی اپنی آزاد منصوبہ بندی ترتیب نہیں دے سکتیں۔ اس کے لئے ہمیں اپنے اخراجات کو انتہائی ممکن حد تک ختم کرنا ہوگا اور اس کے لئے پوری قوم کو ساتھ دینا ہوگا۔ ہر شہری سے لے کر اداروں تک کو قربانی دینا ہوگی۔
قرضوں کو کم کرنے کے لئے ہمیں قومی سطح پر کوئی ایسا نظام ترتیب دینا ہوگا جس سے بیرونی قرضوں کو اندرونی قرضوں میں تقسیم کیا جاسکے تاکہ قرضوں پر جو سود کی مد میں اپنا زرمبادلہ ہم عالمی مالیاتی اداروں کو دے رہے ہیں وہ ملک کے اندر رہے۔
تجارتی منصوبہ بندی کی نئے سرے سے تجدید کرنا ہوگی جس کا مرکز ٹیکسز کے حصول سے زیادہ لوگوں کی آمدن بڑھانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہو تاکہ اگر حکومت کے محصولات میں کچھ کمی بھی آئے تو کم از کم عوام کی آمدن، روزگار اور رہن سہن میں تو بہتری آئے۔ اور اس سے جب تجارتی ماحول بہتر ہوگا تو محصولات خود بخود ہی بڑھ جائیں گے۔
اور اگر دھیان سارا محصولات پر ہوگا تو کاروبار متاثر ہونگے اور ایسے میں محصولات کا بڑھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔ تجارتی منصوبہ بندی ایسی بنانا ہوگی جس میں بیرونی سرمایہ کاری کے لئے دلکشی پیدا ہو اور ہمارے بیرون ملک پاکستانیوں سے لے کر عالمی کاروباریوں تک کو پرکشش منصوبوں کے منصوبے سے متوجہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ان کو مکمل مالی تحفظ، اعتماد اور ان کے سرمائے کی ترسیل میں مکمل آزادی اور خود مختاری دینا ہوگی۔
تمام تر سبسڈیز، مراعات، خوراک، زراعت اور بنیادی ضروریات کی اشیا کی طرف موڑنا ہونگی تاکہ ہم قومی سطح پر خود کفالت کو قائم کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ جس سے تجارتی خسارے سے لے کر بجٹ خسارے تک کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
قومی سطح پر سادگی، مطالعہ اور علم وتربیت کے ماحول کو رواج دینا ہوگا۔ قائدین کو چاہیے کہ وہ مہینے میں ایک دن قومی سطح کی یونورسٹیز میں اپنی اپنی منسٹریز سے متعلقہ فیکلٹیز میں گزاریں اور وہاں طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ تبادلہ خیال بھی کریں۔
اگر ہم جنیٹک سائنسی علوم کی مناسبت سے دیکھیں تو میں آپ کو یاد دہانی کروانا چاہوں گا کہ البیرونی جیسے جید سائنسی علوم کے ماہر آپ کے آباء واجداد سے سیکھنے کے لئے جہلم اور چکوال کے علاقے میں آکر رہے اور ان کی سائنسی لیبارٹریز کے آثار قدیمہ آج بھی چیخ چیخ کر ہمیں جہالت کی نیند سے بیدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان جینز کا مشاہدہ آج بھی ہماری قومی طاقت اور کماند کی صورت میں موجود ہے اور ان ہیروں کو مزید تراشنے اور ان کی توانائیوں اور صلاحیتوں کو صحیح سمت دے کر فائدے اٹھانے کی ضرورت ہے۔
اس وقت مایوسیاں اور عدم استحکام پھیلانے والے سب سے بڑے ملک وقوم کے دشمن ہیں۔ ان کو قومی دھارے میں لانے کے لئے دعوت، تجاویز دے کر ساتھ چلانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر وہ مثبت جواب نہیں دیتے تو ان کو قومی سطح پر مکمل طور پر نظر انداز کر دینا چاہیے مگر کسی کو بھی قانون اور امن عامہ سے کھیلنے کی قطعاً بھی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
جلسے جلوسوں پر پابندی لگا کر عوام کو حکومت تک رسائی، اپنے تحفظات اور مطالبات پہنچانے کے لئے آن لائن خلا مہیا کیا جانا چاہیے اور اس نظام کو اعتماد دینے کے لئے لوگوں کے جائز مطالبات کا بروقت رسپانس دے کر ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے سیاسی ماحول کو بدلا جا سکے۔