میں جس دور میں پلا بڑھا ہوں، اس دوران صحافت کے لوازمات اور پیمانے کافی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں۔ اب شاید صحافتی فرائض کی ادائیگی کے لئے اس طرح نہ ہی سات سمندر پار جانا پڑتا ہے اور نہ ہی دشت و صحرا میں پسینے سے شرابور شب و ایام بھٹکنے کی ضرورت باقی رہی ہے۔ اب کسی بھی خبر اور خبر کی تحقیق شاید ایک کلک اور کچھ سکرولنگ میں حاصل ہو جاتی ہے۔ لیکن، پھر بھی میرے پاس صحافتی تشویق کی موٹیویشن میں نہ جانے کیوں ایک شخص ہے جس کا دماغ سوالوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہاتھ میں قلم اور ڈائری تھامے، کبھی شہر کی تنگ و تاریک گلیوں میں ورطہ حیرت میں مبتلا ہے، کبھی سپیروں کی بستی میں سپیروں سے محو گفتگو، کبھی کوئلے کی کانوں میں دب کر مر جانے والے متاثرین کی ماؤں کے آنسو پونچھتے تو کبھی تھر کے صحرا میں بھوک سے دم توڑتے بچوں کو نااہل حکمرانی کی نذر ہوتا دیکھ کر بے چین ہوتے شخص کا تصویری خاکہ پختہ ہے۔
محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ صحافت اور صحافی جو میں نے سوچ رکھا ہے محض میرے تخیل کی اختراع ہے۔ لیکن، کچھ وقت قبل معلوم ہوا کہ دور حاضر میں بھی ایسا ایک صحافی ہے جو میرے تخیلات سے آگے حقیقی صحافتی کردار ہے۔ عید کے روز خبر ملی کہ میرے تخیلات کا صحافی اسحاق منگریو اپنے دوست حسن درس کی برسی کے روز حسن درس سے جا ملا۔ اس روز محسوس یوں ہوا کہ اشرف پلی کے تخیلات میں بسا بدین کے ساحل کے ساتھ بیٹھا آدو ملاح بے حد اداس تھا۔ تھر کے پیاسے اور تپتے صحرا میں ماحولیاتی دشموں کے نشانوں سے سینہ چاک روہیڑو، کونبھٹ اور کنڈی مزید سکڑنا شروع ہو گئے۔ نواب شاہ کے کسان بھی گویا لاوارث ہو گئے۔ تھر کول کی ماحولیاتی تباہ کاریوں کا چارہ ساز اور غم گسار نہیں رہا۔ یہ خبر شاید تھر کے ان قصبوں کی مٹی نے بھی بھانپ لی ہے جن کا دامن اب کوئی جار اگانے سے بانجھ ہو گیا ہے۔
اسحاق سندھ کے ضلع سانگھڑ سے تعلق رکھتے تھے جہاں ایک نہایت ہی چالاک اونٹ گھاس کھانے کی پاداش میں اپنی ایک ٹانگ گنوا بیٹھا۔ اُن دنوں اسحاق ٹھیک ہوتے تو اس اونٹ کی درد کتھا ضرور بیان کرتے۔ لیکن، اونٹ کے درد اور چیخوں اور اسحاق کے قلم کے مابین گردوں کی تکلیف حائل ہو گئی۔ اسحاق کی صحافت کا محور ہمیشہ عام لوگ رہے۔ ان کی صحافت حیدرآباد کے قاسم آباد کے ان جوگیوں کی بستی کی آواز بھی بنی جو بڑے بنگلوں والے علاقے کی سب سے پرانی بستی ہونے کے باوجود ہر بنیادی سہولت سے محروم رہی۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اسحاق کا صحافتی مدار ان لوگوں کی کہانیاں تھیں جن کے لئے چاہے سیلاب ہو یا وبا، کسی کے پاس امداد نہیں ہوتی۔ اسحاق کی صحافت ان کسانوں کی بھی ہمنوا و ہمدرد بنی جن کی زمینیں سرمایہ دارانہ دھوئیں میں کالی ہو چکی ہیں۔ ان کے مطابق 'صحافی کا اولین کام سوال اٹھانا ہے، صحافی سوال اٹھانا چھوڑ دے تو صحافی کے پاس باقی کچھ نہیں'۔
تاحال صحافت سرخیوں میں نیوز سٹوریز کے ذریعے ہوتی رہی۔ لیکن اسحاق کو منفرد مقام اس طرح بھی حاصل تھا کہ انہوں نے ناصرف نیوز سٹوریز بلکہ اپنے ایڈیٹوریلز کے ذریعے بھی صحافت کی اور کئی سٹوریز ان کے ایڈیٹوریلز کے ذریعے قارئین کو پڑھنے کے لئے ملتی رہیں۔ سانگھڑ اور خیرپور کے ریگستانوں میں عرب شکاری کیمپوں کے مقامی آبادیوں پر مظالم جو اس سے پہلے کبھی رپورٹ نہ ہو سکے، وہ درد بھری کہانیاں بھی اسحاق منگریو کے ایڈیٹوریلز کے ذریعے لوگوں تک پہنچیں۔
اسحاق منگریو نے اوائل میں طلبہ سیاست، اس کے بعد قوم پرست سیاست اور پھر ترقی پسند سیاست میں حصہ لیا۔ لیکن 1990 کی دہائی سے انہوں نے باقاعدہ صحافت شروع کی۔ اس کے بعد وہ تاعمر صحافی ہی رہے۔ جیتے جی کبھی بھی خود کو اور اپنی صحافت کو مرنے نہیں دیا۔ وسعت اللہ خان کے بقول 'جو صحافی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں ان میں سے اسحاق منگریو بھی کم ہو گیا۔ یعنی صحافت اور کمزور ہو گئی'۔
وہ دور جب صحافت ایکسکلوزیو سٹوریز سے نکل کر اب جا کر فیس بک پوسٹ تک محدود ہوئی ہے، اس دور میں جہاں مجموعی طور پر صحافیوں میں کسی بھی خبر کو کرید کر تہہ در تہہ سچ ڈھونڈنے کے بجائے اپنی صحافت کو ایک منافع بخش کاروبار اور ہمہ وقت برائے فروخت کے طور پر پیش کرنے کا رجحان ہے، وہاں اسحاق منگریو آخری دم تک اصولی صحافت، مقامی کہانیوں اور ایسی سٹوریز جو طاقت کے ملبے تلے دب جاتی ہیں، انہیں کرید کر منظرعام پر لانے والی اعلیٰ صحافتی اقدار سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔
اب وہ جو نہیں تو سوچتا ہوں کہ اب خیرپور ناتھن شاہ اور جھڈو کے ڈوبنے پر سوال اٹھانے والا کون ہے؟ منچھر کے ٹوٹنے اور ایل بی او ڈی کے الٹے بہنے پر پریشان ہونے والا کون ہے؟ اب میرے تخیلات کا صحافی کون ہے؟