اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے حکم دیا ہے اڈیالہ جیل کے بیمار قیدی خادم حسین کیلئے کل یعنی عدالتی چھوٹے والے دن بھی متعلقین پیش ہوں۔
وزارت صحت اور وزارت انسانی حقوق کی جانب سے نمائندہ پیش نہ ہونے پر عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے بذریعہ نوٹس آئندہ سماعت پر طلب کیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں خود اڈیالہ کا مہمان بنا تھا اس لیے وہاں کے حالات کا علم ہے، جیل حکام کو اپنے اختیارات کا علم ہی نہیں ہے، قیدی صرف جیل کی ہی نہیں ریاست کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔
دوران سماعت پنجاب کے ضلع راولپنڈی کی مرکزی جیل اڈیالہ میں گنجائش سے زیادہ قیدی رکھنے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ اڈیالہ جیل کے سپرٹنڈنٹ نے انکشاف کیا کہ 1500 قیدیوں کی جگہ4800 قیدی رکھے جا رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخوست منظور ہونے کے بعد چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت عام قیدی کی بیماری کا کیس بھی نواز شریف کی طرح سنے گی۔
انہوں نے کہا تھا کہ جب کسی قیدی کی جان کو خطرہ لاحق ہوگا تو عدالت کیس کی سماعت کے لیے بیٹھے گی اور چیف جسٹس 24گھنٹوں میں اس کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف نواز شریف کیس کے لیے نہیں بلکہ ہر اس قیدی کے لیے ہے جو سزایافتہ ہے، ہم صرف اشرفیہ کے مسائل پر بات کرتے ہیں،عدالت نے عام قیدیوں کے مسائل پر بات کرنا اپنی ذمہ داری سمجھا اور اتفاق ہے کہ ایسا ایک ہائی پروفائل کیس میں ہوا۔
خیال رہے کہ بیمار قیدیوں کی ضمانت اور طبی سہولیات فراہم کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اگر حکومت اپنے فرائض سے غفلت برتے تو متاثرین عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔