منسٹر ریلوے! آپ چینلز کی ریٹنگ بارے فکر مند نہ ہوں

منسٹر ریلوے! آپ چینلز کی ریٹنگ بارے فکر مند نہ ہوں
سیاست میں کب کیا ہو جائے کچھ پتہ نہیں چلتا ہے۔ اسی طرح کس وقت حاضری کا حکم دیا جائے یہ بھی تعین کرنا مشکل ہے۔

یہ سب کچھ موصوف وزیر ریلوے شیخ رشید احمد المعروف پنڈی کی شان، لال حویلی کی آن کے ساتھ ہو، اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر صاحب وزارت چلانے میں مہارت رکھتے ہیں، اور کسی نہ کسی دور میں وزیر بھی رہے ہیں۔

جب سے تبدیلی کے ساتھ منسلک ہوئے تو حسب روایت "ریلوے" کی وزارت دی گئی، اس سے پہلے یہ کام سعد رفیق کے پاس تھا، دونوں میں ایک کام مشترکہ تھا کہ ہر ہفتے ریلوے ہیڈ کوارٹرز لاہور میں پریس کانفرنس اور اپنی کارکردگی کو میڈیا کے سامنے رکھنا۔

ن لیگ کے آخری دور میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریلوے خسارے کا نوٹس لیا اور سابق وزیر ریلوے کی خوب کلاس لی، اس موقع پر شیخ صاحب پیش پیش رہے اور نت نئے مشورے دیتے رہے۔

لیکن ریلوے کی موجودہ حالت زار پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران انتہائی سخت ریمارکس آئے، چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح ریلوے کو چلایا جا رہا ہے اس سے بہتر ہے کہ اس محکمے کو بند کر دیا جائے۔

جی جناب! یہ ریمارکس حکومت کے سینئر وزیر کے خلاف آئے ہے، ویسے ایک نظر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو حیرت کی بات نہ معلوم ہو کیونکہ یہ تبدیلی کا دور ہے، ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے جس کا مقصد سب کام پچھلی حکومتوں پر ڈال دو۔

ریلوے کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، پرانے زمانے کے انجن، انگریزوں کے زمانے کے ریلوے ٹریکس، فرسودہ نظام، ریلوے اسٹیشنوں کی بری حالت، لیکن وزیر ریلوے سیاست میں کیا ہونے والا ہے، کون اندر کون باہر جانے والا ہے اس پر پیش گوئی کرنے میں صف اول میں شامل ہیں۔ گویا کچھ چینل ریٹنگز کی خاطر شو میں بلا لیتے ہے۔

تبدیلی کا راگ اپلانے والوں کے بقول یہ سب کچھ ورثے میں ملا تھا لیکن شیخ صاحب کے کھاتے میں یہ نہیں ڈال سکتے ہیں کیونکہ کہ وہ خود ورثے میں ملے تھے اور وزارت میں بھی تجربہ تھا، مطلب حکومت کا زبانی جمع خرچ پر زیادہ زور ہے۔

خیر اب وقت بتائے گا یا پھر چیف جسٹس کے ریمارکس کہ شیخ صاحب اور ان کی وزارت کا کیا بنے گا!