دارالامان بھی جائے امان نہیں

دارالامان بھی جائے امان نہیں
صنف نازک کی عزت کی بے عزتی شائد کائنات کے تخلیق کیساتھ ہی وجود میں آ گئی تھی۔ گناہ کا یہ کاروبار کسی ایک ملک، زبان یا مذہب کے لوگوں سے منسوب نہیں بلکہ ساری دنیا میں کہیں کھلے عام ہوتا ہے اور کہیں ڈھکے چھپے انداز میں جاری ہے۔ اغیار نے اس کیلئے 'علاقے' مخصوص کئے ہوئے ہیں جہاں جا کر ذہنی اور نفسیاتی بیمار اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں۔

یاد پڑتا ہے کہ ایوب خان کے اقتدار میں آنے تک بڑے شہروں میں یہ مخصوص 'علاقے' ہوا کرتے تھے لیکن پھر ان کے ایک وزیر با تدبیر کی غیرت جاگی اور انہوں نے ان پر پابندی لگا دی، نتیجہ یہ نکلا کہ یہ کاروبار ملک کے گلی کوچوں میں پھیل گیا۔ بعد ازاں وہ علاقے تو پھر آباد ہو گئے لیکن جو بیماری شہر میں پھیل چکی تھی وہ وقت کیساتھ ترقی ہی کرتی گئی۔

ظاہر ہے اس لاعلاج 'بین الاقوامی' بیماری کا مکمل علاج تو مشکل ہے لیکن کچھ مقامات ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں تقدیس حاصل ہوتی ہے۔

25132/

وقت کے ساتھ خواتین میں بڑھتی ہوئی تعلیم نے انہیں معاشرے میں اپنا ہنر دکھانے کی راہ دکھائی تو آج ہمیں دفاتر، فیکٹریوں، ٹیلی وژن اور دیگر مقامات پر وہ نہ صرف اپنا ہنر آزماتی نظر آتی ہیں بلکہ کئی مقامات پر وہ مرد حضرات پر سبقت لئے ہوئے بھی نظر آتی ہے۔

ہم بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے پھرتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر آفت آئے ہم ان کے لئے جان دینے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ ایک عام آدمی کی بات نہیں ہمارے علما اور مشائخ سب سے آگے ہوتے ہیں، لیکن اس قبیح فعل کو سر انجام دیتے ہوئے اللہ اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کا خوف ہمیں اس سے باز نہیں رکھتا، نہ ہی ہمارے علما حضرات اس پر احتجاج کرنے کیلئے سڑکوں پر آتے ہیں۔

پنجاب حکومت نے بے سہارا معصوم خواتین کیلئے دارالامان بنایا تھا لیکن آج لاہور کے دارالامان کی انچارج نے جو لرزہ خیز انکشافات کئے ہیں اس پر کسی کی غیرت کیوں نہیں جاگی؟ کیا اس لئے کہ وہ بے سہارا تھیں؟ کیا اس لئے کہ ان کا کوئی والی وارث نہیں تھا؟

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ کسی کی بیٹی، بہن یا ماں نہیں تھیں۔ ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟ کہاں ہیں وہ علما حضرات جو کشمیر کی بیٹیوں کی غم میں کوچہ کوچہ ریلیاں نکالتے ہیں؟ کہاں ہیں بلند و بانگ ایوان انصاف میں بیٹھے ہمارے منصفین؟ کیا اس پر انہیں از خود نوٹس نہیں لینا چاہیے؟ کیا یہ عوامی اہمیت کا معاملہ نہیں؟ یاد رکھیں سب کے گھر میں بیٹی، بہن، اور ماں موجود ہے۔ تصور کریں خدانخواستہ ان کے ساتھ ایسا کچھ ہو تو کیا ہم پھر بھی چپ کر کے بیٹھے رہیں گے؟

چند دن قبل ہی چیف جسٹس صاحب نے کہا ہے کہ وہ صرف اللہ کو جوابدہ ہیں۔ چیف جسٹس صاحب سے گذارش ہے کہ اس بات کا فوری نوٹس لیں اور دارالامان کی انچارج کی داد رسی کریں اور اس قبیح فعل میں ملوث طاقتور اشخاص کو قرار واقعی سزا دیں۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔