انسانی معاشرے میں ہم ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہوئے زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ یوں تو ہر شخص ہی کسی نہ کسی طرح سہارے کی تلاش میں ہوتا ہے لیکن غریب کو دادرسی اور حاجت روائی کے مسیحا کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔پاکستان چونکہ بنتے ہی مشکلات کا شکار ہو گیا تھا۔
اس لیے عوام کبھی آمروں کو حاجت روا مانتی تھی، کبھی قائد کے فرمانوں کی طرف دیکھتی تھی۔ ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو ایک مسیحا بن کر ابھرا۔ بھٹو کو خدا نے کمال کی شخصیت دی تھی۔ اسکی چال، اسکی آواز، اسکی گفتگو اور اسکی تقاریر میں صور بھرا ہوا تھا۔
جس کے کانوں میں پڑتی، وہ پھر سے جی اٹھتا، مخالفین کے بیانیے دم توڑنے لگتے لیکن کیا بھٹو صرف گفتار کا غازی تھا؟ اسکا جواب نفی میں ہے۔ لینڈ ریفارمز ہوں، متفقہ آئین ہو، پاسپورٹ ہو یا طلبہ یونینز وغیرہ ہوں۔۔۔
یہ اعجاز ہے حسن وآوارگی کا
جہاں گئے داستاں چھوڑ آئے
یہ تمام باتیں شاید دم توڑ جاتیں لیکن بھٹو جس دھج سے مقتل میں گیا، وہ دھج اسکو ہمیشہ سلامت رکھے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ بھٹو غلطیوں سے پاک تھا، اس نے بنگلہ دیش کے معاملے میں سختی برتی، مذہب کو بھی استعمال کیا، اپنے مخالفین کی زبان بندی بھی کی اور انہیں پابند سلاسل کیا۔
بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی بنائی تو پنجاب میں تھی لیکن یہ جماعت پورے پاکستان پر چھا گئی۔ سندھ چونکہ بھٹو کا گھر تھا، اس لیے جماعت کا گڑھ بھی بنا۔
بھٹو کی وفات پر صرف سندھ نہیں، پورے پاکستان میں آنسو بہے۔ بھٹو کے جانے پر شاید کوئی خلا بنتا لیکن پیپلز پارٹی کی طرف سے بھٹو کی بیٹی بینظیر نے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ کر نہ صرف ملک کو بلکہ عورت کو بھی مضبوط کیا لیکن یہ تمام خوبیاں اس پیپلز پارٹی میں تھیں جسے چراغ رخ زیبا لیکر بھی ڈھونڈا جائے تو بھی نہ ملے۔
آج سندھ اگر جائیں تو یقین نہیں آتا کہ یہ اسی شخص کا گھر ہے جو ملک بدلنے نکلا تھا!
میرا تعلق سندھ کے شہر حیدرآباد سے ہے لیکن اپنی رائے کا اظہار کرنے سے پہلے میں اپنے دوستوں کی رائے کا اظہار کرنا بہتر سمجھوں گا جن کا تعلق حیدرآباد، دادو، شہدادکوٹ اور لاڑکانہ سے ہے۔ یہ تمام دوست پڑھے لکھے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
جس دوست کا تعلق دادؤ سے ہے اسکا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے بہت اچھے اور بہتر اقدامات کیے ہیں جن میں تعلیمی اداروں کا قیام، بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام وغیرہ دیے لیکن یہ تمام چیزیں سرمایہ داروں کے ہاتھوں یرغمال رہیں جس کی وجہ سے انکا جس حد تک فائدہ ہو سکتا تھا، وہ نہیں ہو سکا۔ دیگر دوستوں کے خیالات کافی مختلف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ایک تابناک ماضی رکھتی ہے لیکن حالیہ پیپلز پارٹی کے قول و فعل میں بہت تضاد ہے۔
بظاہر تو پیپلز پارٹی نے بہت اچھے اقدامات کیے ہیں۔ جن میں خواتین کو اقتدار کے ایوانوں میں لانا، انکے لیے قانون سازی کرنا، صوبوں کو خودمختار بنانا وغیرہ شامل ہیں لیکن، ان تمام اقداما ت کا کوئی براہ راست فائدہ عام آدمی نہیں اٹھا سکا۔ غریب کی حالت وہی ہے جو کسی اور دور حکومت میں تھی۔ نہ کھانے کو کچھ بہتر میسر ہے، نہ علاج کی سہولیات میسر ہیں۔
25163/
لاڑکانہ میں ویکسن نہ ملنے کے باعث بچے کی موت نے پیپلز پارٹی کی ساکھ کو ناقابل تلافی دھچکا پہنچایا اور تابوت کی آخری کیل بن کر پیپلز پارٹی کو لگی ہے۔ قانون سازی میں بھلے ہی پیپلز پارٹی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی لیکن سماجی سطح پر اپنی نا اہلی میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ انکا یہ اعتراض بھی تھا کہ پیپلز پارٹی بھٹو خاندان سے نکل چکی ہے، نام میں بھٹو لگانے سے یہ حقیقت چھپ نہیں سکتی۔
ان تمام کی آرا اپنی جگہ، میں اب اپنی رائے کی طرف آتا ہوں۔ میرا ذاتی خیال اس ضمن میں کچھ یوں ہے کہ، عام آدمی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون سی جماعت کھل کر فوج کے خلاف بولتی ہے یا کونسی جماعت آمروں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کسی ملک کے سربراہ کی گاڑی خود چلاتا ہے یا پھٹے ہوئے کپڑے پہنتا ہے۔
غریب کو معیشت کی بھاری بھاری لغت کا بھی کچھ علم کسی دور میں بھی نہیں ہوتا۔ غریب صرف یہ جانتا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کی حکومت اتنی ہی اچھی تھی تو میں پڑھنے کے لیے اپنے محبوب حیدر آباد کو چھوڑ کر اسلام آباد کیوں آیا؟ میرے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوا تو کوئی سرکاری ہسپتال اسکا علاج کیوں نہ کر سکا؟ میرے جاننے والوں نے پیسوں کی عوض سرکاری نوکریاں کیسے خرید لیں؟ سندھ کی چند ایک”مضبوط“ خواتین کس طرح افسران کو گالیاں دے دے کر ان کی پوسٹنگز تک کے فیصلے کرتی رہی ہیں۔
سندھ کے دیہی علاقوں میں کیوں آج بھی زمیندار خدا بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔دیہی سندھ جائیں تو لگتا ہے ٹائم مشین ہمیں قبل مسیح میں لے آئی ہے۔ کیوں دیہی علاقے کا سندھی زمیندار کی مرضی کے خلاف اپنا حکمران تک نہیں چن سکتا ؟ ووٹ کے وقت کیوں لسانیت اور قومیت کو ہوا دی جاتی ہے؟
کیا سندھ میں سندھی زبان بولنے والے سندھیوں کے علاوہ اردو، میمن، بلوچ وغیرہ نہیں رہتے۔ لسانیت کے مسئلے کو حل کیوں نہیں کیا جاتا؟ پاکستان کے کسی بھی صوبے میں شہری اور دیہی تقسیم نہیں لیکن سندھ میں ایسا اب تک کیوں ہے؟ میرے اپنے بہترین دوست سندھی بولنے والے سندھی ہیں، لیکن سیاسی محاظ پر کیوں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ تم سندھی نہیں مہاجر ہو۔ کیوں سندھ کے سکولوں میں مجھے ان اساتذہ سے پڑھوایا جاتا ہے جو یا تو کبھی سکول آتے ہی نہیں یا اگر آتے بھی ہیں تو وہ اپنے subject کا نام تک صحیح spell نہیں کر سکتے۔
میں کسی اور صوبے میں جائوں تو مجھے کیوں نقل کر کے پاس ہونے کا طعنہ ملتا ہے؟ اور اس بات میں کوئی جھوٹ نہیں کہ سندھ میں نقل کا ایک طوفان بپا ہے۔ میں اپنی سند کسی اور صوبے میں دکھائوں تو مجھے کیوں کہا جاتا ہے کہ ہمیں معلوم ہے سندھ میں ڈگری کیسے ملتی ہے؟
کیوں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں نہیں پڑھتے؟ کیوں انکے علاج سرکاری ہسپتالوں میں نہیں ہوتے؟ کیوں یہ لوگ وہ پانی نہیں پیتے جو دیہی سندھ کے لوگ پیتے ہیں؟ کیوں دیہی سندھ میں ہاریوں اور کامداروں کو انسان تک نہیں سمجھا جاتا؟ آج بھی کارو کاری کیوں ختم نہ ہو سکی؟ان تمام باتوں کا جواب یہ ہر گز نہیں کہ ایسافلاں جگہ بھی ہوتا ہے یا ایسا فلاں لوگ بھی کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی فوج کے ساتھ ہے یا خلاف؟ آئین کی بالادستی چاہتی ہے یا اسے کاغذ کا ٹکڑا سمجھتی ہے، غریب سندھی کو اس سےکوئی سروکار نہیں، خدارا غریب کو وہ روٹی، کپڑا اور مکان دے دیں جس کا وعدہ ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ تب جا کر پیپلز پارٹی صرف سندھ کی بجائے ایک بار پھر پورے پاکستان کی جماعت بنے گی۔
کنور نعیم ایک صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر Kanwar_naeem او فیس بک پر KanwarnaeemPodcasts پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔