پیپلز پارٹی سے محبت مجھے وراثت میں ملی۔ جب شعور نہیں تھا، اساتذہ سے کچھ سیکھا نہیں تھا، تب بھی میں اپنے باپ کو جانتا تھا۔ میرا ایمان کی حد تک یقین تھا کہ میرا باپ کچھ بھی غلط نہیں کر سکتا تو شہید چیئرمین بھٹو اگر غلط ہوتے تو ان کو لیڈر کیوں مانتا۔
پھر ہم نے بی بی شہید کو اپنے پورے شعور میں دیکھا۔ کیا شان دار خاتون تھیں، کیا لیڈر تھیں اور اتنی بڑی لیڈر تھیں کہ ان کو ڈرانے کا ڈرامہ ہو نہیں سکتا تھا اس لیے مار دیا گیا۔
میں اب ان معروف معنوں میں جیالا نہیں رہ گیا جیسے میں 80 اور 90 کی دہائی میں تھا بلکہ 2007 تک آتے آتے میرا سارا سیاسی رومانس چکنا چور ہو چکا تھا۔ انقلاب کے خواب دم توڑ رہے تھے کہ بی بی شہید پاکستان لوٹ آئیں۔ ان کی دلیری، بہادری، ان کا مضبوط مؤقف ہماری بجھتی ہوئی راکھ کو چنگاری بنا گیا اور ان کی شہادت نے تو مسلسل آنکھ اور ذہن میں ایسے شعلے بھڑکائے جو اب قبر میں مٹی ہی سے بجھ سکیں گے۔
پنجاب میں رہ کر پی پی سے محبت کرنا آسان کام نہیں ہے۔ بھٹوز کا نام لینا آسان نہیں۔ یہاں کے درباری سرکاری ملاؤں اور نام نہاد دانشوروں کے مسلسل پروپیگنڈہ نے بھٹو کے زندہ و جاوید نام کو ایک طعنہ بنا دیا ہے۔ شہید بھٹو کے زندہ ہونے کے رومانوی لوک داستان جیسے نعرے کو ایک گھٹیا جگت میں بدلنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ پھر بھی ہماری وراثت، ہمارا شعور ہمیں غلط نہیں ثابت کرتا۔ آج جب پی پی کو صرف سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہونے کا طعنہ گالی کی طرح دیا جاتا ہے، پی پی ملتان، کراچی میں فتنہ خان کو زمین چاٹنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ آزاد کشمیر کے پہاڑوں میں بلدیاتی انتخابات میں پی پی کی کامیابی ان نام نہاد دانشوروں کے منہ پر طمانچے مار رہی ہے جو پی پی کو دیہی سندھ تک محدود ہونے کی زہر افشانی کرتے رہتے ہیں۔
کچھ تو بات ہے پی پی میں۔ لیکن دوستو میں جیسے پہلے کہہ چکا کہ اب میں 80 اور 90 کی دہائی کی طرح معروف معنوں میں جیالا نہیں رہ گیا لیکن اب بھی آصفہ بھٹو کو دیکھ کے شہید بی بی بہت یاد آتی ہیں۔ وراثت کی سیاست کو گالی کہنے والوں کو ذرا بھٹو خاندان اور بلور خاندان کے قبرستان دکھاؤ۔ یہ خون اور قربانیوں کی وراثت ہے جس کا بوجھ اٹھانا آپ جیسے سیاسی برائلروں کے بس کی بات نہیں جو اپنے بنائے ہوئے باپ کو وقت گزر جانے کے بعد گالیاں دیتے ہیں۔
یہ گولی، پھانسی، قید اور جدوجہد کی وراثت ہے۔ آپ ابھی کوئی جنرل فیض حمید ڈھونڈیں۔ اس وراثت کے ابھی آپ اہل نہیں ہیں۔ پی پی زندہ و جاوید ہے۔ 55 سال گزر چکے ہیں۔ بھٹو شہید کی شہادت کو 45 سال ہونے کو آئے۔ ان کا نام آپ ابھی تک مٹا نہیں سکے۔ آپ کی نام نہاد سیاسی جہدوجہد کی کانپیں وزیر آباد کے ایس ایچ او کے سامنے ٹانگ جاتی ہیں۔
آپ کوئی اور کام کر لیں۔ بھٹو شہید اور بی بی شہید کی وراثت جاری ہے، جاری رہے گی۔۔