بلوچستان میں جہاں صحافیوں کو علاقائی سطح پر دیگر مسائل کا سامنا رہتا ہے وہیں مالی مشکلات بھی صحافیوں کو درپیش رہتی ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے دیگر تمام اضلاع میں اکثر صحافیوں کو تنخواہیں نہیں ملتیں۔ تمام بڑے بڑے چینلز نے او ایس آرز کے نام سے صحافیوں کو اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے مگر ان کو چینل کی طرف سے کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔
واشک پریس کلب کے صدر محمد اسماعیل عاصم بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ میڈیا مالکان بلوچستان کے صحافیوں کا استحصال کر رہے ہیں۔ ایک دو چینل کے علاوہ کوئی بھی چینل صحافیوں کو تنخواہ نہیں دے رہا۔ ایشیا میں خود کو سب سے بڑی سکرین کے مالک کہنے والے چینلز بھی بلوچستان کے صحافیوں کو تنخواہیں نہیں دیتے، حتی کہ بعض چینلز تو او ایس آرز کو کارڈ اور لوگو بھی نہیں دیتے۔
اسماعیل عاصم 6 سال سے 92 نیوز میں کام کر رہے ہیں۔ ان کا شکوہ ہے کہ چینل انتظامیہ کا رویہ ہمارے ساتھ بالکل اچھا نہیں ہوتا، تنخواہ دینا تو دور کی بات دو سال سے مسلسل کہنے کے بعد اب جا کر انہیں لوگو ملا ہے لیکن کارڈ ابھی تک نہیں ملا۔ اسی طرح کوریج میں بھی ہمیں نظرانداز کیا جاتا ہے، عوامی ایشو کو تو شاید چینل کے نزدیک اہمیت ہی نہیں، ہم جب عوامی مسائل پر پیکچ یا ایز لائیو کرتے ہیں تو ہمیں ایک دو دن انتظار کروایا جاتا ہے کہ آج نہیں تو کل آن ایئر ہو گا لیکن پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔
اسماعیل عاصم کے مطابق اسلام آباد اور کراچی میں بیٹھے میڈیا مالکان کو کیا پتہ کہ ہمیں کس قسم کے دباؤ کا سامنا رہتا ہے، انہیں تو بس اپنے چینل کی فکر ہوتی ہے نہ کہ نمائندگان کی۔ کسی پیکج یا ایز لائیو کے لیے جب ہم کسی اہم حکومتی ذمہ دار یا قبائلی شخصیت کا ساٹ لیتے ہیں یا اس کے ساتھ ایز لائیو کرتے ہیں تو پھر وہ ہم سے بیک اپ بھی مانگتے ہیں۔ جب چینل پر آن ایئر ہی نہ ہو تو ہم کہاں سے بیک اپ دیں۔ اس طرح کے مواقع پر نمائندگان کو انتہائی سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بسا اوقات بااثر شخصیات کے پروگرامز ہوتے ہیں تو وہ ہمیشہ کوریج کے لیے بلاتے ہیں لیکن جب انہیں ٹی وی سکرین پر کوریج نہیں ملتی تو وہ ہم پر آگ بگولہ ہوتے ہیں اور ہمیں تھریٹ بھی کیا جاتا ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں بلکہ اسلام آباد میں بیٹھے بادشاہ صفت چینل مالکان کے ہاتھ میں ہے جو بلوچستان کے لوگوں کو تو شاید انسان تک ہی نہیں سمجھتے۔ صرف الیکشن کے وقت ہی ہماری یاد ان کو آتی ہے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ اس طرح کی صورت حال میں صحافتی تنظیمیں میڈیا مالکان پر دباؤ کیوں نہیں ڈالتیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہماری حق تلفی میں یہ یونین والے خود شامل ہیں۔ بلوچستان میں صرف ایک یونین ہے جو کہ کوئٹہ تک محدود ہے جبکہ اس کو نام دیا گیا ہے بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کا لیکن کوئٹہ کے علاوہ دوسرے اضلاع کے کسی ایک صحافی کو بھی اس یونین میں ممبرشپ نہیں دی گئی تا کہ وہ مشکلات کے شکار دیگر اضلاع کے صحافیوں کے لیے آواز اٹھا سکیں یا ان کا مقدمہ پیش کر سکیں۔ سینکڑوں کلومیٹر دور تمام سہولیات اور وسائل کے حامل کوئٹہ کے چند صحافیوں کو ہماری مشکلات سے کیونکر دلچسپی ہو گی اور ہمارے مسائل کا ان کو کیا علم ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ ایک دو کے علاوہ دیگر تمام چینلز کو کوئٹہ میں بیٹھے بیورو چیف ہی دیکھتے ہیں جو کہ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس میں ہیں تو اندازہ کریں کہ جب یونین والے خود ہی اس ناانصافی میں ملوث ہوں تو وہ کس طرح کردار ادا کریں گے۔ البتہ جن تین بڑے چینلز نے کوئٹہ بیورو چیف کے بجائے نمائندوں کو ہیڈ آفس سے کنکٹ کیا ہوا ہے تو ان کو تنخواہیں بھی ملتی ہیں۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری حق تلفی کے براہ راست ذمہ دار بلوچستان یونین آف جرنلسٹس اور کوئٹہ کے بیورو چیفس ہیں۔
صحافیوں کو تنخواہیں اور سہولیات نہ ملنے کے حوالے سے جب خضدار پریس کلب کے صدر محمد صدیق مینگل سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پریس کلب کے اکثر اراکین کو تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ اگر ہم میڈیا مالکان سے مطالبہ کرتے ہیں تو آگے سے فوری ہمارے ساتھیوں کو جواب ملتا ہے کہ ٹھیک ہے آپ کام نہ کریں، ہم کسی اور کو دیکھیں گے اور وہ پھر سوشل میڈیا سے کسی کو پکڑتے ہیں اور نمائندہ رکھتے ہیں۔ ان غیر صحافی سوشل میڈیا یوزرز کو نمائندگی دیے جانے سے ہمارے پریس کلب میں مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پھر یہ نان پروفیشنل لوگ شہر اور ہم سب کے لیے درد سر بن جاتے ہیں، لہٰذا اس صورت حال سے بچنے کے لیے ہم خاموشی کو ہی عافیت سمجھ رہے ہیں۔
خضدار پریس کلب کے جنرل سیکرٹری اور ایک بڑے چینل سے وابستہ صحافی کے مطابق میڈیا مالکان نے بلوچستان کے صحافیوں کے ساتھ انتہائی نامناسب رویہ رکھا ہوا ہے۔ جب ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ بلوچستان کو کوریج کیوں نہیں ملتی تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ ہمیں بلوچستان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، بلوچستان سے اشتہارات تک نہیں ملتے، جہاں ہمیں فائدہ ہو گا ہم انہیں اہمیت دیں گے۔ خود کو ایشیا کی سب سے بڑی سکرین کے حامل گرداننے والے ایک چینل نے کوئٹہ کے علاوہ کسی ایک نمائندہ کو کارڈ تک نہیں دیا اور کوریج میں بھی نظرانداز کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک بار انہیں چینل نے شہر سے باہر 90 کلومیٹر دور جا کر ایک حادثے کی کوریج کرنے کا کہا جب انہوں نے کوریج کی تو پھر وہ چلائی ہی نہیں گئی۔ حالانکہ انہوں نے وہاں تک جا کر اپنی جیب سے دس ہزار روپے تک خرچہ بھی کیا تھا۔ کوریج چینل نہیں دیتا لیکن خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہے۔ اس کی پاداش میں بسا اوقات ہمیں جانی خطرات بھی لاحق ہوتے ہیں مگر چینل والوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ان کے مطابق بعض سیاسی لوگ اور طاقت ور عناصر اس بنیاد پر ہمارے دشمن بن جاتے ہیں کہ ہمیں کوریج کیوں نہیں ملی حالانکہ اس میں ہمارا قصور نہیں ہوتا۔ ہمارا کام یہاں سے کوریج کر کے آگے دینا ہوتا ہے پھر چلانا ان کا کام ہوتا ہے۔ ایک بار سکیورٹی فورسز کی جانب سے خضدار میں ایک بہت بڑا پروگرام کیا گیا۔ ہم نے اس کی کوریج کر کے چینل کو بھیجی لیکن چینل نے آن ایئر نہیں کی جس کے بعد ہماری شامت آ گئی۔ ہمیں بار بار کال کر کے تنگ کیا جاتا رہا اور پھر ہماری پیشی بھی ہوئی تو اندازہ کریں کہ ہم کس حالت میں صحافت کر رہے ہیں کہ جائے رفتن نہ پائے مانند۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری منظور احمد بلوچ سے میڈیا مالکان کے رویہ اور تنخواہوں کے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بالکل درست طریقہ نہیں ہے، ہم نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے کہ میڈیا ورکرز کے حقوق کا خیال رکھا جائے، کوئی بھی میڈیا ہاؤس اگر کسی ورکر کو تنخواہ نہیں دیتا تو یہ ٹھیک عمل نہیں۔ یہ میڈیا ورکرز کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح کے طور طریقوں سے صحافت کمزور ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے دیگر اضلاع کو کوریج کم ملتی ہے۔ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ رپورٹرز کل وقتی ہوں، ان کو تنخواہیں دی جائیں اور یہ کہ ان کی پوزیشن بھی واضح کی جائے کہ رپورٹر ہے، سٹاف رپورٹر ہے یا نامہ نگار ہے اور انہیں سالانہ بونس بھی دیا جائے۔
المیہ یہ ہے کہ چینلز اور اخبارات کو فری میں کام کرنے والے لوگ مل جاتے ہیں جس کی وجہ سے ورکنگ جرنلسٹس کی حق تلفی ہوتی ہے جبکہ ورکنگ جرنلسٹس تو فری میں کام ہرگز نہیں کر سکتے۔ اس لیے ہمارا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ جو کسی چینل یا اخبار کے لیے فری میں کام کر رہا ہو اسے ہم صحافی تسلیم نہیں کرتے اور اندرون بلوچستان کے پریس کلبوں سے ہماری گزارش بھی یہی ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کو آپ پریس کلبز کی ممبرشپ نہ دیں۔