اپریل کے آخر سے جولائی میں مون سون کی آمد تک کا خشک دور پاکستان کے جنگلات میں “آتشزدگی کا موسم” ہے، جو ملک کے شمال میں کوہ ہندوکش ہمالیہ کا احاطہ کرتا ہے۔ صوبہ بلوچستان کے دور افتادہ ضلع شیرانی کے رہائشی جان خروٹی کہتے ہیں، “اس موسم بہار میں اچھی بارشیں نہیں ہوئیں اور تیز ہوا، گرم موسم کی وجہ سے آگ تیزی سے پھیل گئی۔” شیرانی کوہ سلیمان میں واقع ہے، جو کوہ ہندوکش کا حصہ ہے۔
ملک کے محکمہ موسمیات کے مطابق، اس سال کے شروع میں بھارت اور پاکستان میں شدید اور طویل گرمی کی لہر آئی اور پاکستان میں مارچ میں معمول سے 62 فیصد کم بارش ہوئی۔ ان سوختہ دان حالات کے نتیجے میں پنجاب، کشمیر، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے جنگلاتی علاقوں میں کئی دنوں تک جنگل کی آگ بھڑکتی رہی۔ متعدد ہلاکتوں کا سبب بننے کے علاوہ، آگ نے درختوں اور جنگلی حیات کو ہلاک کر دیا، اور کچھ علاقوں میں حالیہ طوفانی سیلاب میں اضافہ ممکن ہے۔ طبّی خواص والے پودوں، شہد کی مکھیوں اور چیلگوزے کی تباہی نے خاص طور پر مقامی معاش کو متاثر کیا ہے۔
خروٹی کہتے ہیں، “آگ 2,000-3,000 فٹ کی بلندی پر لگی۔ گاؤں نیچے کی طرف ہیں، اس لئے کسی بھی املاک کو نقصان نہیں پہنچا۔ میں آگ بجھانے میں مدد کےلئے اوپر چڑھا اور اپنی آنکھوں کے سامنے لوگوں کی روزی روٹی جلنے کا خوفناک منظر دیکھا”۔ “میں نے دیکھا کہ آگ ایک تیار چلغوزے کے درخت سے دوسرے درخت تک پھیل گئی۔ پائن کونز کے اندر موجود رال نے آگ کو ایندھن کی طرح پھیلانے میں مدد کی۔ تین لوگوں کی موت ہو گئی، کیونکہ جب لوگ آگ سے لڑ رہے تھے، ہوا کا رخ بدل گیا۔ آپکو شعلوں سے بچنے کے لئے بہت تیزی سے بھاگنا پڑتا ہے”۔
آتشزدگی کے غیر معمولی واقعات:
ضلعی جنگلات کے افسر محمد وسیم کہتے ہیں، “اس سال، سوات میں محکمہ جنگلات کو آگ لگنے کے 51 واقعات رپورٹ ہوئے، جو کہ پہلے کبھی سنا نہیں گیا تھا۔” اپنی جھیلوں اور جنگلات کے ساتھ، دلکش سوات پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک سیاحتی مقام ہے۔ وسیم کا کہنا ہے کہ اس موسم بہار میں لگنے والی آگ نم معتدل جنگلات میں بھی لگی، جو کہ غیر معمولی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال ضلع میں صرف 15-20 واقعات ہوئے تھے اور نم معتدل زون میں کوئی آگ نہیں لگی تھی۔ لیکن اس سال آتشزدگی کے موسم میں سوات میں 5600 ہیکٹر سے زائد جنگلات کو آگ لگنے سے نقصان پہنچا۔
وسیم کہتے ہیں،”سوات میں جنگل کے تین زون ہیں: چیڑ کے درخت، نم معتدل اور جھاڑیاں۔ اس سال ان تینوں زونز میں آگ لگی ہے۔ مقامی دیہاتی طبّی خواص والے پودے اور نم معتدل زون میں شہد جمع کرکے اچھی روزی کماتے ہیں۔ آتشزدگی سے ان کی آمدنی متاثر ہوئی ہے‘‘۔
مکھنیال کے ایک سب ڈویژنل فارسٹ آفیسر زوہیب حسن کا کہنا ہے کہ سوکھی پائن سوئیوں کے جمع ہونے کی وجہ سے، خیبر پختونخواہ کے ضلع ہری پور کے جنگل کے بڑے حصے میں جون میں آگ لگ گئی۔ ٹین بلین ٹری سونامی شجرکاری انیشیٹیو کے ایک حصے کے طور پر اس علاقے کو “بند” کر دیا گیا تھا۔
حسن نے تھرڈ پول کو بتایا، “ہم نے ان علاقوں کے اندر کسی مویشی کے چرنے کی اجازت نہیں دی، تاکہ جنگل کی تخلیق نو ہوسکے۔ ہمارے خیال میں مقامی کمیونٹیز جان بوجھ کر اس خشک موسم میں آتش گیر پائن کی سوئیوں اور کونز کو آگ لگاتی ہیں،” ۔
حسن کے خیال میں، جنگل میں آگ لگانا ٹیریس فارمنگ یا تعمیرات کے لئے زمین کو غیر قانونی طور پر صاف کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ خیبرپختونخوا کے قوانین کے تحت، کمیونٹی یا نجی ملکیت والے جنگلاتی علاقوں میں زمین کے استعمال کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ حسن نے مقامی پولیس اسٹیشن میں مختلف ملزمان کے خلاف درجن بھر شکایات درج کرائی ہیں۔
18.6 ملین امریکی ڈالر:
پاکستان میں، 66 فیصد جنگلاتی رقبہ صوبائی حکومتوں کے محکمہ جنگلات کے زیر انتظام ہے، جبکہ باقی نجی ملکیت میں ہے۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے ایک ریٹائرڈ افسر سید رضوان محبوب بتاتے ہیں،”پاکستان میں ان جنگلات میں اور اس کے آس پاس رہنے والی زیادہ تر کمیونٹیز گزر اوقات کے لئے خاص طور پر ان پر منحصر نہیں ہیں۔ مقامی لوگ قریبی قصبوں اور شہروں میں کام کرتے ہیں جبکہ ان کے خاندان مویشی پالتے ہیں جو جنگلوں میں چرتے ہیں۔ کچھ پہاڑی اضلاع میں وہ غیر لکڑی والی جنگلاتی مصنوعات جیسے شہد اور دواؤں کے پودوں کی فروخت کے ذریعے اپنی آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں۔”
وسیم اور حسن کا کہنا ہے کہ اس سال خیبرپختونخوا خوش قسمت رہا، اس میں لگنے والی آگ تمام “زمینی آگ” تھی جس میں پختہ درخت بری طرح متاثر نہیں ہوئے۔ وسیم کہتے ہیں، “پہاڑوں پر لگنے والی کراؤن فائر خطرناک ہیں جو پورے درختوں کو جلا دیتی ہیں اور بجھانا مشکل ہوتا ہے۔” کراؤن فائر درختوں کی جڑوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہے، جو مٹی کو پکڑ کے رکھتی ہیں اور سیلاب کو روکتی ہیں۔
بلوچستان میں ‘کراؤن فائر‘:
بلوچستان کے علاقے شیرانی کو اس سال جنگلات میں لگنے والی آگ سے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کی آتشزدگی سے متعلق ایک رپورٹ کے مطابق، جو ابھی تک آن لائن دستیاب نہیں ہے لیکن جسےدی تھرڈ پول نے دیکھا ہے، کوہ سلیمان میں چلغوزہ کا 1,542 ہیکٹر جنگل جل گیا، جو دنیا کے ایسے بڑے جنگلات میں سے ایک ہے۔ خروٹی کے مطابق، شیرانی، صوبہ بلوچستان میں آنے والے بڑے سیلاب سے بچ گیا کیونکہ ضلع کی عمومی بلندی سطح سمندر سے تقریباً 1,500 سے 3,000 میٹر کی بلندی پر ہے۔
آئی یو سی این کے مطابق، ان پائنز سے ہر سال اوسطاً 2.8 ملین کلو گرام گری دار میوے حاصل ہوتے ہیں، جن کی مالیت 11.2 بلین پاکستانی روپے ( 51 ملین امریکی ڈالر) ہے۔ شیرانی میں جنگل کی آگ سے ہونے والے نقصان کے بارے میں آئی یو سی این کے حالیہ سروے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ 900,000 درخت جل چکے ہیں، جس کے نتیجے میں آنے والے کئی سالوں تک ہر سال 4 بلین روپوں ( 18.6 ملین امریکی ڈالر) کا نقصان ہوگا۔
ایک چلغوزہ کے درخت کو تجارتی کٹائی کے لئے گری دار میوے تیار کرنے میں 40 سے 50 سال لگتے ہیں۔ خروٹی کہتے ہیں، “ایک شخص نے مجھے بتایا کہ اس کے خاندان نے 100 درختوں سے چلغوزے بیچ کر سالانہ 2.2 ملین روپے ( 10,238 امریکی ڈالر ) کمائے۔ اب وہ درخت جل چکے ہیں”۔ خروٹی کا کہنا ہے کہ قریب ترین قصبہ ژوب میں ایک کلو گرام چلغوزہ 3,000 روپے ( 14 امریکی ڈالر ) میں فروخت ہوتا ہے، لیکن یہ لاہور یا کراچی میں 11,000 روپے اور ایکسپورٹ کرنے پر 20,000 روپے تک پہنچ جاتا ہے۔
آئی یو سی این کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آگ ممکنہ طور پر اس علاقے میں خانہ بدوشوں کے کیمپ لگانے سے لگی تھی۔ یہ تقریباً 13 دن تک بھڑکنے کے بعد بجھ سکی۔
رہائشیوں نے آئی یو سی این ٹیم کو بتایا کہ خوراک کا تحفظ اب ان کی بنیادی تشویش ہے، کیونکہ یہاں کی تقریباً 50 فیصد آبادی کا مکمل انحصار چلغوزے کے جنگلات سے ہونے والی آمدنی پر ہے۔ خروٹی کہتے ہیں،”چلغوزے کے درختوں کی پیدائش نو میں کافی وقت لگے گا۔ ہماری امید یہ ہے کہ تباہ شدہ جنگلات 20-25 سال بعد دوبارہ سبز ہو جائیں گے۔‘‘
چلغوزے پر منحصر کمیونٹیز روایتی طور پر دکانداروں سے ادھار پر خوراک خریدتی ہیں اور اگست اور ستمبر میں چلغوزوں کی کٹائی کے بعد قرض کی ادائیگی کرتی ہیں، لیکن وہ اس سال ایسا نہیں کر پائیں گے۔ آئی یو سی این تجویز کرتا ہے کہ مقامی کمیونٹیز کو اگلے چھ ماہ تک خوراک فراہم کی جائے تاکہ “جلے ہوئے جنگلات کی بحالی اور/یا آمدنی کا متبادل ذریعہ تیار کیا جا سکے”۔
یہ ممکن ہے کہ آگ نے پاکستان کے 2022 کے سیلاب کو مزید بگاڑ دیا ہو:
آئی یو سی این رپورٹ کے مطابق جنگل کی آگ کے نتیجے میں “حیاتیاتی تنوع، مٹی اور ماحولیاتی انحطاط، کٹاؤ اور سیلاب میں اضافہ ہوتا ہے، پانی کے چشمے سوکھ جاتے ہیں، اور آبی ذخائر میں تلچھٹ کا سبب بنتے ہیں”۔
وسیم اور حسن نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ ان کا ماننا ہے کہ بلین ٹری سونامی پروجیکٹ، جو 2014 میں خیبرپختونخوا میں شروع کیا گیا تھا، نے اس بھاری مون سون کے موسم میں صوبے میں آنے والے سیلاب سے بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان کو روکا۔ اس دعوے کی تصدیق کے لئے ابھی تک سائنسی مطالعات کا آغاز ہونا باقی ہے۔
جنگلات پاکستان کے صرف 4.8 فیصد حصے پر محیط ہیں، اور آگ ملک میں جنگلات کے نقصان کا سب سے بڑا محرک ہے: گلوبل فاریسٹ واچ کا اندازہ ہے کہ 2001 سے 2021 کے درمیان، پاکستان میں آگ کی وجہ سے 5,460 ہیکٹر رقبے پہ محیط درختوں کو اور دیگر تمام ڈرائیوروں سے 4,290 ہیکٹر رقبے کو نقصان پہنچا۔
زیڈ بی مرزا، پاکستان میں مقیم ایک معروف ماہر فطرت، سیلاب کی مزاحمت کے لئے جنگلات کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ وہ دی تھرڈ پول کو بتاتے ہیں کہ ہندو کش ہمالیہ کے علاقے میں ایک صدی سے زیادہ لکڑی کی کٹائی نے پاکستان کے پہاڑوں کو ختم کر دیا ہے اور سیلاب کے اثرات کو بڑھا دیا ہے۔ “ہم نے بنا سوچے سمجھے اپنے تمام پہاڑوں کی زرخیز مٹی کے کٹاؤ کے اسباب پیدا کئے ہیں … کسی بھی پودوں کو اکھاڑنا اوپر کی مٹی کو ڈھیلا کر دیتا ہے، جو بارش کے ساتھ بہہ جاتی ہے۔ پہاڑی ڈھلوانوں پر پانی کا بہاؤ بہت تیز ہو جاتا ہے جہاں جنگل کا احاطہ کم ہوتا ہے یا کوئی جنگل نہیں ہوتا، جیسا کہ بلوچستان کے پہاڑوں میں عام ہے (جہاں موجودہ سیلاب آچکا ہے)۔”
روک تھام اس کا حل ہے:
چلغوزہ کے علاوہ، مویشی پالنا (بنیادی طور پر بکریاں اور بھیڑیں) ان کمیونٹیز کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے، لیکن آئی یو سی این تجویز کرتا ہے کہ جنگلات کو چرنے کے لئے بند کر دیا جائے تاکہ ان کی تخلیق نو ہو سکے، اور یہ کہ نۓ باغات کے لئے علاقے میں نرسریاں قائم کی جائیں۔ یہ تجویز کی گئی ہے کہ حکومت کو جنگل کی حفاظت کے لئے کمیونٹی گارڈز بھی بھرتی کرنا چاہیں۔
یہ مطالعہ مستقبل میں آگ سے نمٹنے کے لئے مقامی محکمہ جنگلات اور کمیونٹیز کی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت پر روشنی ڈالتا ہے۔ ایک حالیہ سائنسی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اس موسم گرما میں بھارت اور پاکستان میں جنگلات میں آگ کا سبب بننے والی گرمی کی لہروں کی شدت اور تعدد آنے والے سالوں میں بڑھنے کا امکان ہے۔ اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے رکن وقار زکریا کے مطابق، تمام محکمات جنگلات کو آگ کو کم سے کم کرنے کے منصوبوں پر عمل درآمد پر توجہ دینی چاہیے۔
“جنگلاتی علاقوں میں آگ کی روک تھام کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور اسے بہتر نگرانی اور کمیونٹی کی شمولیت کے ساتھ ہی ممکن کیا جا سکتا ہے۔”
ڈائیلاگ ارتھ ایک کثیرالزبان پلیٹ فارم ہے جو ہمالیہ کے آبی بہاؤ اور وہاں سے نکلنے والے دریاؤں کے طاس کے بارے میں معلومات اور گفتگو کو فروغ دینے کے لئے وقف ہے.