عمران ریاض خان اپنی لائن بدلنے کو تیار تھے!!!

"عمران ریاض خان اپنی سابقہ ہارڈ لائن کو اپنے اغوا سے قبل ہی چھوڑنے پر ذہنی طور پر آمادہ ہو چکے تھے اور یہ مان چکے تھے کہ ان سے کئی جگہوں پر لائن کراس ہوئی وہ ان کی غلطی تھی"

Imran Riaz Khan

پاکستان میں تاریخی اعتبار سے تو خیر کبھی بھی انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی حکومت یا دور قابل تعریف نہیں رہا البتہ خرابی کے مختلف پیمانوں پر مختلف حکومتیں درجہ بندی میں رہی ہیں۔ ان ادوار میں ابھی براہ راست ملک پر قابض آمریت کی بات نہیں ہو رہی کیونکہ جب وہ براہ راست قابض ہو جائیں تو ان سے تو انسانی حقوق کی کیا ہی امید لگانا مگر جب نام نہاد جمہوری حکومتیں اس ملک پر مسلط کی گئیں وہ ادوار بھی انتہائی خراب۔ بہت بار یوں محسوس ہوا کہ آمریت کے مقابلے زیادہ بھیانک دور نام نہاد جمہوری حکمرانوں کا تھا۔

مگر اس وقت مدعا عمران ریاض خان ہیں جو حال ہی میں بازیاب ہوئے ہیں۔ کس سے بازیاب ہوئے معلوم نہیں، کس نے اغوا کیا معلوم نہیں، ریاست نے کہاں سے بازیاب کروایا معلوم نہیں، کیوں اٹھائے گئے معلوم نہیں، کس کے کہنے پر بازیاب ہوئے معلوم نہیں، کہاں رکھا گیا تھا معلوم نہیں، کس ڈیل کے تحت آئے معلوم نہیں، سب سے حیرانگی کی بات یہ ہے کہ عدالت نے بازیابی کا حکم دیا اس پر کئی ماہ عمل نہ ہوا اور جب عمران ریاض واپس آئے تو عدالت نے یہ کہہ کر کیس کو منطقی انجام تک پہنچا دیا کہ چلیں شکر الحمد اللہ وہ واپس آ گئے۔

نہ عدالت نے پوچھا کہ وہ کہاں سے آئے، کیسے آئے، نا پولیس نے بتانے کی زحمت کی کہ عمران ریاض کہاں تھے اور کیوں تھے۔

اب جب عمران ریاض خان واپس آ چکے ہیں تو ہر شخص ان کے ساتھ جا کر تصاویر بنا کر اپنی کہانی بتا کر اپنا صحافتی و ذاتی چورن بیچنے میں مصروف ہے۔ البتہ ایک بات یہاں واضح ہونی چاہیے کہ عمران ریاض کی گمشدگی پر ان کے شدید ترین مخالفین نے بھی اس حد تک ان کے حق میں آواز اٹھائی تھی کہ اگر عمران ریاض مجرم ہے کسی بھی چیز کا تو اس کو عدالت کے سامنے پیش کر کے ٹرائل چلائیں نا کہ یوں لاپتہ کر دیا جائے کیونکہ آئین پاکستان کسی بھی شہری کو یوں لاپتہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا عمران ریاض خان جو واپس آنے پر بظاہر معلوم ہو رہا ہے کہ کافی کمزور ہو چکے ہیں اور یقیناً ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا، ان کو دماغی ٹارچر کیا گیا ہے جس سے ان کے بولنے میں فی الحال دشواری ہے، البتہ اس کے علاوہ وہ ٹھیک اور محفوظ ہیں اور خدا ان کو مزید تندرست کرے۔ لیکن کیا عمران ریاض جب مکمل صحتیاب ہو جائیں گے تو ان کی لائن اور نظریہ اب بھی وہی ہو گا جو ان کی گمشدگی سے قبل تھا؟ جس پر کئی سینیئر صحافیوں کو اعتراض تھا کہ یہ صحافت نہیں بلکہ جانبداری ہے اور ایک خاص جماعت کے سربراہ کے حق میں ایکٹوازم ہے!

بہت ہی مصدقہ ذرائع جو یوں کہیں تو غلط نہیں ہو گا کہ عمران ریاض خان کے سب سے قریبی تھے اور ہیں ان سے مکمل تفصیلات ملی ہیں۔ عمران ریاض خان کے واپس آنے سے قبل اور بعد میں میری ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور انہوں نے واضح کیا کہ عمران ریاض خان اپنی سابقہ ہارڈ لائن کو اپنے اغوا سے قبل ہی چھوڑنے پر ذہنی طور پر آمادہ ہو چکے تھے اور یہ مان چکے تھے کہ ان سے کئی جگہوں پر لائن کراس ہوئی، وہ ان کی غلطی تھی۔

عمران ریاض خان کی گمشدگی سے قبل جو ان کی کچھ تقاریر اور ارشد شریف شہید کے لئے بلائے گئے مختلف ایونٹس میں ان کی گفتگو تھی وہ اس چیز کی عکاس تھی کہ وہ اپنی پچھلی لائن جس میں وہ اس حد تک جانبدار تھے کہ اپنی برادری یعنی صحافیوں کے خلاف بھی گفتگو بہت سخت الفاظ اور الزامات کے ساتھ کرتے تھے وہ ترک کر کے صحافیوں کی ایکتا کے لئے تیار تھے۔ وہ اس چیز کو سمجھ چکے تھے کے جانے انجانے وہ استعمال ہو چکے ہیں، جو ان کی غلطی تھی۔ وہ اس بات کو بھی تسلیم کر چکے تھے کہ حامد میر کو لگی گولیاں، ابصار عالم پر ہوا حملہ اور اسد طور سے ہونے والے غیر انسانی سلوک پر جو رویہ انہوں نے رکھا تو وہ غیر مناسب تھا اور غلط تھا۔ عمران ریاض اپنی گمشدگی سے قبل یہ اعادہ کر چکے تھے کہ صحافیوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک اور حملوں کو وہ کسی پر بھی ہو قابل مذمت سمجھ کر اس کا ساتھ دینا چاہیے۔

ان کے قریبی ساتھی نے مزید بتایا کہ جب عمران ریاض خان کو یہ کہا گیا کہ آپ اس بات کا کھل کر اظہار کریں اور صحافیوں کو یقین دلائیں کہ اب آپ ان کے ساتھ ہیں تو عمران ریاض خان کا موقف یہ تھا کہ ابھی وقت نہیں ہے کیونکہ اس وقت وہ (عمران ریاض) اور دیگر وہ صحافی جو ان کی طرح کی لائن رکھتے تھے ان پر برا وقت ہے، پرچے ہیں، تکالیف ہیں تو اگر اس وقت وہ یہ بات کریں گے تو محسوس ہو گا کہ شاید اپنے لئے مدد مانگی جا رہی ہے۔

عمران ریاض خان کا کہنا تھا کہ میں جانتا ہوں میرے پر مشکل آئے گی۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے ساتھ ایسا کوئی کام ضرور ہو گا چاہے وہ گرفتاری کی صورت میں ہو یا اس طرح کی گمشدگی کی صورت میں، لہٰذا ان کا کہنا تھا کہ جب یہ وقت گزار کر میں یہ سب بھگت آؤں گا تب تمام صحافیوں کے سامنے یہ مؤقف رکھوں گا کہ ہمیں ایک ہونا چاہیے کیونکہ اس طرح کا جبر آپ بھی بھگت چکے ہیں اور ہم بھی لہٰذا آگے کسی کے ساتھ ایسا نہ ہو تو ہمیں ایک ہونا ہو گا اور ملک میں آئین کی پاسداری کے لئے مل کر کام کرنا ہو گا جو کہ ملک و قوم کے لئے بہتر ہو۔

امید ہے جلد جب عمران ریاض خان تندرست ہو کر واپس آئیں گے تو یہ مؤقف اپنائیں گے اور یقیناً یہ ایک بہترین شگون ہو گا۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@