پارلیمان کی بالادستی ملک سے امتیازی سلوک مٹا کر حاصل ہو گی

پارلیمان کی بالادستی ملک سے امتیازی سلوک مٹا کر حاصل ہو گی
پارلیمان کی بالادستی کا مطلب عوام کی بالادستی ہے کیونکہ ممبر پارلیمان عوامی نمائندے اور ان کی آواز ہوتے ہیں. اگر کوئی اس اہلیت پر پورا نہیں اترتا تو اس کو نمائندگی کے دعوے کا کوئی حق نہیں۔ عوامی نمائندگی کا مطلب عام شہری کے رہن سہن اور ماحول کو ایک معیار بناتے ہوئے اوپر سے لے کر نچلی سطح تک جہاں جہاں بھی قومی خزانے سے سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں ان کو برابری کی بنیاد پر رائج کرنا ہے۔ آقا و غلام کے ماحول کو ختم کر کے طاقت کے ایوانوں میں عام شہری کی حالت زار کے احساس کو اجاگر کرنا ہے اور اگر عوام کی نمائندگی کے حصول کے بعد عوام شودر بن جائیں اور عوامی نمائندوں کے رہنے کی جگہ ریڈ زون بن جائیں تو تُف ہے ایسی بالادستی پر۔

اس وقت پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں پارلیمان کا حصہ ہیں اور آئین میں ترامیم کے علاوہ عوامی فلاح کے لئے کسی بھی قانون سازی میں ان کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ بلکہ آئین پاکستان شہریوں میں برابری کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ریاستی اداروں کو اس پر عمل کو یقینی بنانے کا پابند ٹھہراتا ہے۔ امتیازی سلوک بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کو روکنا عوامی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئیے چہ جائے کہ وہ خود اس امتیازی تفریق کا حصہ بن جائیں۔

عوام جاننا چاہتے ہیں کہ کون سی سوچ و عمل ان کو ایسے اقدامات اٹھانے میں مانع ہے۔ وہ خود اس کو ختم کرنے سے خائف ہیں، کوئی نظام کا عمل ان کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے یا ان کے اندر وہ اہلیت نہیں کہ نظام کو درست سمت میں چلانے کے لائق بنایا جا سکے۔ ان کو چاہئیے کہ اگر کوئی امر مانع ہے تو قوم کے سامنے رکھیں، وگرنہ یہ ساری ذمہ داری ان پر عائد ہو گی۔

اس سے اچھا موقع نہیں مل سکتا کہ جب ایک دوستانہ حزب اختلاف بھی میسر ہو اور برابری کو سبوتاژ کرنے میں بڑی رکاوٹیں سخت عوامی تنقید کی زد میں ہوں اور ان کے اعصاب شل ہو چکے ہیں لہٰذا سیاسی قائدین اور جماعتوں کو اپنی اہلیت اور توانائی کو ثابت کرتے ہوئے اصلاحات کے ذریعے سے برابری کو رائج کر کے اپنا قومی فریضہ ادا کرنا ہو گا۔

اگر معاشروں کی تشکیل مادی وسائل کی بنیاد پر کی جا رہی ہو اور برابری اور کردار کو کوئی اہمیت نہ دی جا رہی ہو، انسانوں کی پہچان گاڑی، گھر اور رہن سہن کی بنیاد پر کی جا رہی ہو تو پھر اچھے کردار کے حامل افراد کی ایسے معاشروں میں کوئی جگہ نہیں ہوتی اور نا ہی ان کی رائے کو کوئی فوقیت دی جاتی ہے۔ جب عوام غربت سے مر رہے ہوں اور ملکی طاقت، وسائل اور اختیارات پر بیٹھے لوگوں کو اعلیٰ تنخواہیں، وظائف اور مراعات حاصل ہوں تو ان کو غربت کی تکلیف کا کیا احساس ہو گا! اگر ان کی تنخواہیں، وظائف اور مراعات عام شہری جیسی ہوں گی تو پھر ان کو شاید مشکلات کا احساس بھی ہو گا۔

اگر ان کی تنخواہوں، وظائف اور مراعات کی آسائشوں اور آسودہ حالی کو ختم نہ کیا گیا تو یہ ان کے ثمرات سے اسی طرح پارلیمان کو مشکلات کا شکار اور عوام کا جینا دوبھر بنائے رکھیں گے۔ جن کو قومی خزانے سے گھر، گاڑی اور بنگلہ میسر ہو، ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو لاکھوں روپے جیب میں آ جائیں اور اوپر سے جواب دہی کا بھی کوئی ڈر یا خطرہ نہ ہو، ان کے وہاں پہنچنے کا معیار اور اخلاقی سطح بھی بدتر ہو تو اس سے سازشوں کے علاوہ کیا امیدیں لگائی جا سکتی ہیں؟ بلکہ وہ تو چاہیں گے کہ ان کی موجیں اسی طرح لگی رہیں اور وہ سادہ عوام کو بے وقوف بنائے رکھیں۔

ان اصلاحات اور تبدیلیوں کے بغیر کوئی بھی سیاسی عمل جس میں انتخابات بھی شامل ہیں، کسی کام کا نہیں اور نہ ہی سیاسی عدم استحکام اور بد عنوانی سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اچھے معاشروں کی تشکیل کے لئے اچھے اقدار کو فروغ دینا پڑتا ہے۔

سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ حالیہ انکشافات میں جب پارٹی ٹکٹ ہی کروڑوں میں بِک رہے ہیں تو پھر اچھے لوگوں کا سیاست میں آنا کیسے ممکن ہے؟ جو کروڑوں خرچ کر کے آئے گا، اس کا مقصد کیا واقعی عوامی فلاح و بہبود ہو گا؟ اس مکروہ دھندے کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے اور اگر کوئی ادارہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام ہے تو پارلیمان کس مرض کا علاج ہے؟ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب دلوں میں عوام کا درد رکھنے والے صحیح نمائندگی کے حق دار لوگ پارلیمان میں پہنچیں گے۔

اس عمل کا آغاز سیاسی جماعتوں بارے نظم و ضبط سے ہونا چاہئیے جس میں ان تمام کوتاہیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے جو یا تو موجودہ قوانین پر عمل درآمد کی راہ میں حائل ہیں یا جن کے بارے قوانین خاموش ہیں۔ اس کا حل سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کی ترویج اور سیاسی کارکنوں کی کردار سازی میں ہے۔ پاکستان کی اکثریتی سیاسی جماعتیں حکومت میں موجود ہیں اور اگر وہ حالات سے سبق سیکھتے ہوئے کوئی لائحہ عمل نہیں بناتیں تو پھر یہ کہنے میں قوم بھی حق بجانب ہو گی کہ سب اقتدار کے بھوکے ہیں اور سیاست کو کاروبار بنایا ہوا ہے۔

دوسرا اہم کام امتیازی سلوک کو ختم کرنا ہو گا جس کی بنیاد پر آج بھی جواب دہی کے عمل میں استثنیٰ کا حق برابری کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

اس سے زیادہ اچھا وقت شاید پارلیمان کو نہ مل سکے اور ان کو چاہئیے کہ اس امتیازی سلوک کے بت کو توڑ ڈالیں اور تمام کے تمام شہریوں اور اداروں میں مراعات، وظائف اور تنخواہوں میں برابری کو یقینی بنا دیں۔ تمام کے تمام وہ قوانین جو اختیارات اور طاقت کے بل بوتے پر اپنے آپ کو نوازنے کے لئے بنتے رہے ہیں ان کو ایک ہی جنبش قلم میں نکال باہر پھینکیں اور حقیقی خدمت کو برابری کی بنیاد پر یقینی بنا دیں۔ سب کو جواب دہی کے عمل کا حصہ بنا دیں اور ہر طرح کے استثنیٰ کے ظالمانہ قوانین کو ختم کر کے ریاستی عہدوں پر اچھے کردار کے لوگوں کو لانا ہو گا۔ ایسا صرف برابری کے ماحول سے ہی ممکن ہے تا کہ ان عہدوں کو کاروبار سمجھنے والوں سے جان چھوٹے اور ملک میں خدمت کا ماحول پیدا ہو سکے۔

اگر اب بھی موجودہ حکومت جس میں پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہیں، کوئی مثبت تبدیلی لانے میں ناکام رہی تو پھر عوام کا اس لڑکھڑاتے جمہوری نظام سے مکمل طور پر یقین اٹھ جائے گا اور اس کی تمام تر ذمہ داری موجودہ سیاسی قائدین اور تمام سیاسی جماعتوں پر عائد ہو گی۔

عوام مہنگائی اور بے روزگاری تو کسی نہ کسی طرح برداشت کر سکتے ہیں اور ملک ان مسائل کے باوجود بھی قائم رہ سکتے ہیں مگر بدعنوانی، ناانصافی اور امتیازی سلوک کے ساتھ عوام کا باقی رہنا اور ملکوں کا قائم رہنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔