جنرل باجوہ توسیع: تفصیلی فیصلہ مختصر آرڈر سے بھی زیادہ سخت ہے

28 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حوالے سے جو مختصر آرڈر دیا تھا، اس کا تفصیلی فیصلہ آج جاری کر دیا گیا ہے۔ شارٹ آرڈر میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کی گئی تھی لیکن اس شرط پر کہ چھ ماہ کے اندر اندر پارلیمان کو اس حوالے سے قانون سازی کرنا لازمی ہے۔

تفصیلی فیصلے میں نہ صرف اس فیصلے پر مزید سخت لائن لی گئی ہے بلکہ صاف الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ کیونکہ ادارے کا اپنا قانون اس حوالے سے خاموش ہے اور آئین میں بھی ایسی کوئی شق نہیں جو اس حوالے سے واضح اصول متعین کرتی ہو، عدالت کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ ادارے کی مروجہ پریکٹس کو اصول مانتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ دیا جائے۔ گو کہ نہ تو یہ اصول قانون کا متبادل سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی ماضی میں اس اصول پر ہر بار من و عن عمل ہوتا رہا ہے، مگر اس اصول کے تحت آرمی چیف کی مدتِ ملازمت تین سال بعد ختم ہو جاتی ہے۔

ان سارے حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے میں عدالت کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ کو ان قوانین کے تحت توسیع تو نہیں دی جا سکتی لیکن آرمی چیف کے عہدے کی اہمیت، ان کی ذمہ داریوں اور اٹارنی جنرل کی یقین دہانیوں کی روشنی میں انہیں چھ ماہ کی توسیع دی گئی ہے، لیکن ان چھ ماہ کے اندر اندر اگر پارلیمان قانون سازی میں ناکام رہتی ہے تو ادارے کی پریکٹس کو اصول مانتے ہوئے اسی وقت آرمی چیف خود بخود رٹائرڈ تصور کیے جائیں گے۔



جسٹس منصور علی شاہ اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ چونکہ آئین کا آرٹیکل 243، پاکستان آرمی ایکٹ 1952 اور پاکستان آرمی ایکٹ رولز 1954 اس حوالے سے بالکل خاموش ہیں، جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع، نئے سرے سے تعیناتی اور دوبارہ تعیناتی کے حوالے سے جو بھی سمری حکومت کی جانب سے جاری کی گئی ہے، وہ بے معنی ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جسٹس منصور علی شاہ کے لکھے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے چند انتہائی اہم باتیں کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ کو مدنظر رکھا جائے تو آرمی چیف کا عہدہ انتہائی طاقتور ہے اور ’بے لگام طاقت‘ اور غیر واضح صوابدیدی اختیارات خطرناک ہیں۔



ایک اور جگہ انہوں نے لکھا ہے کہ پارلیمان اگر آرمی چیف سے متعلق Terms and Conditions کا خود فیصلہ کرے تو یہ نہ صرف ملک کی تاریخی غلطیوں کو ٹھیک کرنے میں درست سمت میں ایک اقدام سمجھا جائے گا بلکہ یہ فیصلہ عوام کے منتخب نمائندوں کی خودمختاری کو بھی مظبوط کرے گا۔

اپنے فیصلے کے اختتام پر چیف جسٹس لکھتے ہیں کہ پاکستانی عوام کی جمہوری بلوغت اب اس سطح پر پہنچ چکی ہے جہاں عدالت وہ کہہ سکتی ہے جو 1616 میں برطانیہ کے چیف جسٹس سر ایڈورڈ کوک نے کمنڈم کیس میں کنگ جیمز ون کے اختیارات کے حوالے سے لکھا تھا کہ ’’آپ چاہے کتنے ہی اونچے ہو جائیں، قانون آپ سے اوپر ہی رہتا ہے‘‘۔