لاک ڈاؤن کے دوران غریب کو دیا کیا ہے، سوائے بھاشن کے؟

لاک ڈاؤن کے دوران غریب کو دیا کیا ہے، سوائے بھاشن کے؟
پاکستان میں کرونا وائرس کو پہلے پہل قبول نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ حکومت بھی خاموش رہی اور کرونا وائرس تیزی کے ساتھ ملک میں داخل ہوتا گیا۔ جب پانی ناک تک پہنچ گیا تو وزیر اعظم عمران خان نے خطابات کا سلسلہ شروع کیا مگر فیصلہ نہیں کر سکے کہ کرنا کیا ہے۔ لاک ڈاؤن، کرفیو، سمارٹ لاک ڈاؤن پر بحث کرتے رہے۔ جس طرح کشمیر کے ایشو پر مودی اور آر ایس ایس کے نظریات کے لیکچر دیتے تھے۔ مگر کوئی اصولی فیصلہ کرنے سے قاصر رہے۔ کرونا وائرس کے معاملے میں بھی وزیراعظم کا زیادہ فوکس لیکچرز پر ہے۔

کرونا وائرس کی وبا پھیلنے سے اب تک حکومت نے کوئی ٹھوس اور قابلِ ذکر اقدام نہیں کیا ہے بلکہ گریزاں رہی ہے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے کی جلد بازی اس بات کی شہادت ہے کہ حکومت عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی خواہاں ہی نہیں بلکہ مکمل آمادہ نظر آتی ہے۔

وزیر اعظم کی تقاریر میں بار بار اس بات پر زور دیا جاتا رہا ہے اور مسلسل اس بات کی تبلیغ کی جا رہی ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے احتیاطی تدابیر پر عمل کرانے کی سختی کی تو عوام بھوکے مر جائیں گے یعنی وزیر اعظم اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار چاہتے ہیں۔

عمران خان کی حکومت کا منصوبہ، عمل اور وژن یہ ہے کہ حکومت نیا ہاؤسنگ پاکستان جیسے کاروبار کرے گی۔ جس سے لوگوں کو روزگار حاصل ہوگا اور خوشحالی آئے گی۔ جو این جی اوز کا طریقہ کار ہوتا ہے کہ لوگوں کو بتاؤ، راہنمائی کرو، ایڈووکسی، کیپسٹی بلڈنگ، کاغذی منصوبے اور دیگر ڈھکوسلے کرتے رہو۔ جس سے این جی اوز کو تو فائدہ ہوتا ہے۔ این جی اوز کے کرتا دھرتا امیر بن جاتے ہیں۔ جن کے منہ سے گرنے والے نوالے سے کچھ غریب بھی اپنی بھوک مٹا لیتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان یہی وژن رکھتے ہیں۔

کرونا وائرس پر بھی عمران خان کا یہی خیال ہے کہ عوام اس بات کو قبول کر لیں کہ کرونا قدرتی وبا ہے۔ حکومت قدرت کے آگے بے بس ہے۔ کچھ نہیں کر سکتی ہے۔ لہٰذا عوام کرونا وائرس سے لڑنا سیکھیں اور معمولات زندگی چلاتے رہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اگر کوئی مجھے یقین دلا دیتا کہ ایک یا تین ماہ تک لاک ڈاؤن سے وائرس ختم ہو جائے گا تو اس سے بہتر کوئی بات نہ ہوتی لیکن ماہرین کہہ رہے ہیں کہ رواں سال کے اختتام تک وائرس کی کوئی ویکسین تیار نہیں ہو سکتی اور اس کے بغیر وبا کا خاتمہ ممکن نہیں۔

لامحدود لاک ڈاؤن کے بجائے کورونا کے ساتھ رہنا سیکھا جائے یعنی سماجی فاصلے، ماسک اور سینی ٹائزر جیسی احتیاطی تدابیر کے ساتھ زندگی کی سرگرمیاں بحال کی جائیں۔ وزیراعظم کا مؤقف درست ہے مگر لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد عوام کا بازاروں اور عوامی مقامات پر جم غفیر اک نئے خطرے کو جنم دے سکتا ہے۔ زمینی حقائق کچھ اور ہیں اور وزیراعظم کے ارشادات مغربی ممالک کی تقلید ہیں۔

جناب وزیر اعظم عمران خان صاحب! پاکستان کے عوام کرونا وائرس کے ساتھ رہنا سیکھ سکتے ہیں۔ کرونا وائرس کو قبول کرنے پر تیار ہو جاتے اگر آپ کی تبدیلی سرکار بذریعہ ڈاک ہر گھر کو ماسک ارسال کر دیتی۔ اگر تبدیلی سرکار نے ہر گھر میں راشن پہنچا دیا ہوتا۔ تبدیلی سرکار نے کرونا وائرس سے پہلے ہر بیروزگار کو روزگار فراہم کیا ہوتا تو آج عوام کرونا وائرس کے ساتھ رہنا سیکھ جاتے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی پر بازاروں میں جم غفیر دیکھنے کو نہیں ملتا۔

ریاست جب ماں کا کردار نہیں نبھا سکتی تو پھر عوام بھی نافرمان ہی ہوتے ہیں۔ بھاشن دینے سے عوام کا پیٹ نہیں بھرتا، صاحب۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔