عزیر بلوچ سے سردار عزیر اور پھر عزیر بلوچ تک

عزیر بلوچ سے سردار عزیر اور پھر عزیر بلوچ تک
عزیر بلوچ کی کہانی کو دیکھ کر پتہ نہیں کیوں زبان پر بے ساختہ فیض صاحب کی یہ شعر آ جاتا ہے کہ "ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے"، جن معاشروں میں اظہار رائے کی آزادی جرم ہو، جہاں اخبارات و ملکی الیکٹرانک میڈیا میں ایک پورا خطہ لاپتہ ہو وہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بالکل ویسا لیاری میں ہوا اور بلوچستان میں ہو رہا ہے۔

لیاری بھی میڈیا کے لیے کوئی دور دیش کی نوگو ایریا تھی۔ جہاں کی افلاس، منشیات کے اڈے، ان کے سرپرست اور مسلح لوگ صرف تب ہی خبر بنتے تھے جب ان پر آشیرباد کا سایہ ختم ہوتا تھا۔ یہی حال بلوچستان کا ہے جو اب بھی قومی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے لئے ایک ناقابل رسائی جگہ ہے، جہاں سے صرف وہی خبر پہلے صفحات اور سکرین تک آتی ہے جو منظور شدہ ہو، طلبہ کا احتجاج ہو یا لاپتہ افراد کا مسئلہ، منشیات کی پھیلتی ہوئی آگ ہو یا کرپشن، خبر نہیں بن پاتی۔

جب اظہار رائے کی آزادی کو اس کی اصل اور صحیح جگہ تک پہنچنے نہیں دیا جائے تو وہ کسی اور صورت میں کسی اور جگہ ضرور دکھائی دیتی ہے۔

بلوچستان میں ایک وقت تھا جب وال چاکنگ اور علیحدگی پسندوں کے حق میں جگہ جگہ نعرے لکھے ہوئے نظر آتے تھے، جو شاید ملکی میڈیا تک رسائی نہ ہونے کا ایک انتقام تھا۔ جب سیکیورٹی اہلکار بڑی تعداد میں شہروں میں آئے تو وال چاکنگ کو تو روک لیا گیا مگر بقول گوادر کے ایک جامع مسجد کے امام کی کہ انھیں ایک دن پوچھا گیا کہ مساجد کے غسل خانوں کے اندر کون لکھتا ہے؟ اب اس سوال کا جواب نہ تو مولوی صاحب دے سکے اور نہ ہی کوئی اور اس کی شہادت دے سکتا ہے۔

خیر اس وال چاکنگ کی جگہ نئی چاکنگ شروع ہوئی، سرکاری ایام کی مبارک باد اور اداروں سے متعلق نعرے لکھے گئے، بڑے پوسٹرز اور بل بورڈز آویزاں ہوئے، جن میں ناموں کے ساتھ میر، سردار اور دوسرے کئی القابات عام استعمال ہوتے گئے۔ جن کا مقصد محب الوطنی کا ثبوت دینا تھا اور اپنی خوشی کا اظہار کرنا تھا جو کہ ہر انسان کا حق ہے۔ یہ طریقہ کار اداروں کو خوش کرنے کا اب بھی بلوچستان میں خاص سمجھا جاتا ہے۔

عزیر بلوچ جب سردار عزیر بلوچ بنائے گئے تو وہ بھی مختلف پوسٹرز اور بل بورڈز میں اداروں کے نام کے ساتھ زندہ باد کہتے نظر آئے، لیکن ادارے جب ناخوش ہوئے تو وہ سردار عزیر بلوچ اب دوبارہ سے صرف عزیر بلوچ بن گئے اور پوسٹرز و بل بورڈز کی جگہ اخبارات میں جرم کے صفحات پر نظر آرہے ہیں۔

عزیر بلوچ کی کہانی، ان کی شہرت و سیاست اور موجودہ حالات، اس وقت بلوچستان میں تقریباً ہر شہر میں ایسے کردار ہیں۔ کئی میر و سردار ایسے ہی اچانک سے پوسٹرز اور بڑے بڑے اشتہارات میں نظر آتے ہیں جن کے متعلق عوامی رائے منفی ہے لیکن ان کی رائے اداروں سے متعلق "زندہ باد" ہے۔

ایسے لوگ اصل سیاسی قیادت کی فقدان کی وجہ سے شارٹ کٹ راستوں سے سیاست میں آنا چاہتے ہیں یا لائے جاتے ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ صرف ایک اشتہار یا بیان ہمیشہ کے لیے منصب پر رہنے کی سند ہے۔ انھیں نہیں پتہ کہ پرانی خبر پھر شہ سرخی نہیں بنتی بلکہ ردی کی ٹوکری کی نظر ہوجاتی ہے۔ اب بقول فیض صاحب کہ "ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے" کہ مزید ردی کی ٹوکریوں میں کتنی پوسٹرز اور اشتہارات کب جاتے ہیں اور عام عوام میں سے یہ پوسٹرز والے لوگ کب پھر عام عوام بن جائیں گے۔ ہم دیکھیں گے۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔