سر تن سے جدا کرنے والے ملا مدارس میں جنسی درندگی پر خاموش کیوں؟

سر تن سے جدا کرنے والے ملا مدارس میں جنسی درندگی پر خاموش کیوں؟
کافر کافر کی صدائیں، سرتن سے جدا وغیرہ۔ یہ وہ خوفناک نعرے ہیں جو اکثر و بیشتر کبھی کسی مسجد کے منبر سے، مذہبی جماعتوں کے اجتماعات اور ریلیوں میں سے سننے کو ملتے ہیں جس کا نشانہ کبھی اقلیت تو کبھی سیاستدان، یا پھر سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور صحافیوں سمیت دوسرے فقہ سے تعلق رکھنے والے افراد بنتے ہیں۔

اس وقت قائد کا پاکستان حوس کے پجاری جنسی درندوں کے شکنجے میں ہے اور آئے روز کوئی نا کوئی ایسی دل دہلا دینے والی خبر سامنے آ جاتی ہے جس سے انسانیت بھی شرما اٹھے، گلی میں کھیلتے ننھے پھول، سکول، کالج، یونیورسٹی میں پڑھتے طلبہ، راہ گزر و گھر کی چار دیواری میں موجود عورت یا قبر میں پڑی بے جان لاش حتیٰ کہ ان درندوں کے ہاتھوں جانور تک غیر محفوظ ہیں۔

اب نوبت تو یہاں تک آ پہنچی ہے کہ مسلمانوں کی سب سے مقدس اور پاکیزہ عبادت گاہیں، مساجد و مدارس، جہاں ہر وقت کانوں میں گونجتی قرآن پاک کی تلاوت سے قلبی سکون ملتا ہو، جہاں دن میں پانچ بار اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی ہو، ایسی جگہیں بھی جب دین کا لبادہ اوڑھے وحشیوں کی نظر ہو جائیں تو پھر عوام کہاں جائیں اور کس سے منصفی چاہیں؟

کچھ عرصہ قبل مانسہرہ میں زیادتی کا ایک کیس سامنے آیا جہاں 10 سالہ طالب علم، جو مدرسہ تعلیم القران میں زیر تعلیم تھا، اسے وہاں کے قاری شمس الدین نے کئی مرتبہ نہ صرف زیادتی کا نشانہ بنایا بلکہ اسے دو دن تک حبس بے جا میں بھی رکھا اور مفتی کفایت اللہ پر اس قاری کو پناہ دینے کا بھی الزام عائد ہوا جس کے باعث قاری کو گرفتار کرنے میں پولیس کو مشکلات درپیش آئیں۔ مانسہرہ ہی کی ایک اور ویڈیو سے سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس پر سکول کے طالب علم احتجاج کر رہے ہیں اور کسی قاری کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کے قاری نے 4 سالہ بچی کو ریپ کیا اور ساتھ یہ بھی الزام عائد کر رہے ہیں کے اہل محلہ نے قاری کو موقع سے فرار کرا دیا۔

دوسری طرف تحریک لبیک جلالی گروپ کے ضلع ناروال کے صدر قاری شاہد رفیق مدنی نے مدرسہ (دارالعلوم غوثیہ رضویہ) میں زیر تعلیم 13 سالہ بچے کو 16 ستمبر بعد از نماز عشا مدرسے ہی میں زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا اور تین دن تک بچے کو مدرسے میں قید کیے رکھا۔ تاہم، بعد ازاں اطلاعات کے مطابق اسے گرفتار کر لیا گیا لیکن ابھی تک تحریک لبیک کی طرف سے کوئی مذمت سامنے نہیں آئی۔

حال ہی میں پیش آنے والے سانحہ موٹروے کے حوالے سے معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے بیان جاری کرتے ہوئےطتمام تر نذلہ مخلوط تعلیم پر ہی گرا دیا۔ انہوں نے کہا کالجز اور یونیورسٹیوں میں بچے بچیاں اکٹھے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جب آگ اور پٹرول اکٹھے ہوں تو آگ نہ لگنا کیسے ممکن ہوگا۔ چلو کسی حد تک مولانا کی بات سے اتفاق کر ہی لیتے ہیں مگر مولانا صاحب یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ مساجد و مدارس میں بڑھتی جنسی زیادتیوں کے پیچھے کون سے محرکات ہیں؟ وہاں تو مخلوط تعلیم نہیں۔ پھر وہاں ایسے واقعات کیوں ہو جاتے ہیں؟

مذہبی رہنماؤں کو چاہیے کہ مساجد و مدارس میں چھپے نجس درندوں کو نکال باہر پھینکیں اور ان کے خلاف بھی بلا خوف و خطر بات کریں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کالجز یونیورسٹیز اور دیگر جگہوں کے حوالے دے کر منبر یا تقریبات میں بیان بازی کے ساتھ فحاشی کا تذکرہ کریں اور اپنے اندر چھپے حوس کے پجاریوں کی پشت پناہی کرتے پھریں۔

آخر میں ان شدت پسند ملاؤں اور پیروکاروں کا ذکر کرتا چلوں جن کو جنت کا جھوٹا خواب دکھا کر کافر کافر کی صدا، سرتن سے جدا کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے جنت کے متلاشی حضرات کے لئے عرض ہے کہ ہر وقت گردنیں کاٹنے اور کافر کافر کی صدا سے جنت نہیں ملتی۔ کسی کے بہکاوے میں مت آئیں۔ اس وقت مسلم امہ کی مقدس عبادت گاہوں کا تقدس اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں پامال ہو رہا ہے۔ لہٰذا اپنی منافقانہ خاموشی توڑیں اور ان کے خلاف بھی کچھ بولیں۔