گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اور جہانزیب کالج سوات کی نجکاری: "اب اس کے بعد دیگر کالجز کی باری آئے گی"

گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اور جہانزیب کالج سوات کی نجکاری:
خیبر پختونخوا حکومت نے صوبہ کے معروف تعلیمی اداروں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اور جہانزیب کالج سوات کوBOG کے حوالے کرنے سے متعلق ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے۔جس کے رو سے ادارے کو معاشی اور انتظامی خود مختاری دی جارہی ہے BOG یعنی بورڈ آف گورنرز کا سادہ مطلب سرکاری کالجز کی نجکاری ہے۔ پہلے مرحلے میں اس مقصد کے لئے صوبہ بھر سے آٹھ کالجز کو منتخب کیا گیا ہے جس کے بعد سارے صوبے کا کالجز کو پرائیوٹائز کردیا جائے گا۔ یعنی سرکاری کالجز کو نجی افراد یا اداروں کے ہاتھوں میں دے کر تعلیم شکن پالیسی بنائی جارہی ہے جس پر صوبہ بھر کے کالجز کے اساتذہ احتجاج پر ہیں اور یہ انہیں حکومت کا ظالمانہ قدم بتارہے ہیں ۔
اس حوالے سے ذہن میں ایک لطیفہ آرہا ہے کہ ایک جگہ مشاعرہ ہورہا تھا بہت سے لوگ مشاعرے میں آئے تھے ایک نواموز شاعر پہلی دفعہ اپنا کلام سنا رہا تھا پہلی دفعہ اتنے لوگوں کو دیکھا تھا وہ بغیر بحر وردیف کی شاعری وہ بھی غیر معیاری سنا کر لوگوں کو مصیبت میں ڈال رہا تھا ۔ایک بوڑھا بابا تپ گیا تو اسٹیج تک پہنچ گیا۔شاعر حالات کی نزاکت کو بھانپ گیا اور کہا بابا جی آخری شعر ہے ۔بابا نے کہا کہ تم ہزار اشعار سنادو کوئی مسئلہ نہیں بس تم نے اُس بندے کا نام بتانا ہے جو تمھیں یہاں لے کر آیا ہے ۔
تعلیمی نظام پہلے ہی تباہی کا شکار ہوچکا ہے۔ یونیورسٹیوں میں سیاسی مداخلت، پھر رجسٹرار اور فنانس کی پوزیشنوں پر بیوروکریسی کے بندوں کی تعیناتی ۔سکولوں میں مانیٹرنگ کے نام پر بڑے بڑے پوسٹوں پر بیوروکریسی کی مداخلت انہیں نوازنا، ہسپتالوں میں نجکاری کے نام پر ڈرامے اور اب 2015میں حل کئے ہوئے ایشو کالجز کی نجکاری کا دوبارہ آغاز جس پر اساتذہ بنی گالا تک پہنچ گیے تھے جس وقت مرکز میں عمران خان کی حکومت نہیں تھی تب اعظم خان اور پرویز خٹک کرتا دھرتا تھے جس کے بعد یہ مسئلہ ختم کردیا گیا کہ ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے مگر اب دوبارہ جب عمران خان وزیر اعظم ہیں صوبے بھر کے آٹھ کالجوں کو پرائیوٹائز کردیا جائے گا ۔جس کے بعد یہ دائرہ کار تمام صوبے تک پھیلا دیا جائے گا۔اب جو طالب علم کالج میں تین ہزار سے پانچ ہزار دے رہا ہے نجکاری کے بعد وہ. تیس سے پچاس ہزار فیس ادا کرے گا ۔جو کہ غریب طالب علموں کے ساتھ زیادتی ہے اس سے پہلے یونیورسٹیوں میں بی اے اور ماسٹر کی ڈگریاں ختم کروادی گئیں ۔پرائیویٹ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ پر تعلیم کے دروازے اور یونیورسٹیوں کے لئے ریونیو بنانے والے پرائیویٹ بی اے اور ماسٹر بند کردیئے گئے

کیونکہ صوبہ خیبر پختونخواہ کی اکثریتی آبادی غریب ہے اور ان کی فی کس آمدنی بھی کم ہے جبکہ زیادہ تر آبادی دیہاتوں میں آباد ہے۔آبادی کی اکثریت بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔۔اور شہریوں کو تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا ایک ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔لیکن ہمارے دیس میں الٹی گنگا بہتی ہے۔گورنمنٹ کالجز جن کی صوبے میں تعداد پونے تین سو کے قریب ہے اور یہ کالجز چار لاکھ سے ذیادہ غریب طلباء و طالبات کو ان گھر کی دہلیز پر سستی اور بین الاقوامی معیار کی تعلیم دے رہیے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے گورنمنٹ کالجز کو پورے ملک میں اپنے معیار کے لحاظ سے سر فہرست مانا جاتا ہے۔ یہ کالجز ایف اے ایف ایس سی اوربی ایس چار سالہ ڈگری پروگرامزچلا رہے ہیں بورڈ اور یونیورسٹیز کے نتائج کی شماریات اٹھا کر دیکھیں تو گورنمنٹ کالجز کے نتائج سر فہرست نظر آئیں گے۔اور ان کالجز سے فارغ التحصیل طلباء طالبات کی بڑی تعدادملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔۔ چار سالہ بی ایس پروگرام کا کالجز میں 2009 میں آغاز کیا گیا یہ ایک بین الا قوامی تسلیم شدہ ڈگری ہے جو سب سے پہلے خیبر پختونخواہ کے کالجز نے اپنی انتہائی محدود وسائل میں کامیاب کر کے دکھائی ہے ۔اور اس میں مرکزی کردار کالج اساتذہ کا ہے جن کی شبانہ روز محنت سے یہ اب ایک تناور درخت بن گیا ہے اور صوبے کے تمام کالجزجن میں 116 سے ذیادہ کالجز میں بی ایس چار سالہ پروگرام اور دوسرے ماندہ کالجز میں ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام کامیابی سے چل رہا ہے۔
گورنمنٹ کالجز میں غریب طلباء و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو یونیورسٹیز کی مہنگی تعلیم حاصل کرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔گورنمنٹ کالجز کی بی ایس کی ایک سمسٹر کی فیس 3970 روپے ہے جبکہ گورنمنٹ یونیورسٹی میں یہی بی ایس ایک سمسٹر کی فیس 89000 نواسی ہزار روپے ہےاب گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جہانزیب کالج سوات میں مجوزہ نجکاری کا پروگرام کے لئے نوٹیفیکشن بھی جاری کیا گیا ہے کہ اس کو IM Sciences Peshawar کے پیٹرن پر خودمختارکیا جائے اور نجکاری کی جاۓ ۔
IM Sciences Peshawar کی بی ایس اکنامکس کی ایک سمسٹر
کی فیس 89600 نواسی ہزار چھ سو روپے ہے۔جبکہ گورنمنٹ کالجز کی ایک سمسٹر فیس3970 روپے ہیں ۔
مجوزہ نجکاری کی صورت میں اس کی فیس 89600 روپے ہو گی۔جو غریب کابچہ سوچ بھی نہیں سکتا ہے اوراعلی تعلیم کا دروازہ اس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا ۔جس طرح ہم نے ایک لطیفہ سنایا تھا کہ وہ بندہ کون ہے جو تمھیں لے کر آیا ہے تو یہاں وہ کون لوگ ہیں جو حکومت کو غلط مشورے دیتے ہیں ۔تو ہماری نظر بیوروکریسی کی جانب چلی جاتی ہے جس میں بیوروکریسی کی حرص اور ہر اچھی پوسٹ پر قبضے کی خواہش کا ہونا ہے۔ یہ سارا کھیل بیوروکریسی کا رچایا ہوا ہے جن کی خواہشن ہے کہ وہ کالجز اور ڈاریکٹوریٹ کی سیٹوں پر قبضہ جما کر زیادہ تنخواہ لیں ۔ کالج بی اوجی کے مسئلے پر بیوروکریسی حکومت کو بے وقوف بنانا چاہتی ہے۔ پہلے مرحلے میں کالجز کو خود مختار بنایا جاۓ گا اور کہا جاۓ گا کہ فیس نہیں بڑھے گی۔ اسکے کچھ عرصے بعد فنڈز کی کمی کا کہہ کر کہا جاۓ گا کہ فیسیں بڑھا کر اپنے خرچے پورے کرو۔
حکومت کالج اساتذہ کو ٹرانسفر کر رہی ہے, انکے ذمے 18, 18 کریڈٹ آور کی ٹیچنگ زبردستی کی گئی ہے۔ ٹیچنگ سٹاف کی کمی اور کام کا بوجھ زیادہ ہے۔ کالج اساتذہ کو کلرک بنا دیا گیا ہے۔ اگر حکومت تعلیم میں اتنی مخلص ہے تو کالجز کا سٹیٹس بدلے بغیر کالجز کو فنڈ دے کر سہولیات دے، لیبارٹریاں بنائیں ۔کلاس رومز بنائیں اور اساتذہ پر چونکہ لوڈ زیادہ ہے تو نئے لیکچرر بھرتی کئے جائیں ان کی تنخواہوں میں کمی کی بجائے زیادتی کی جائے اگر بیوروکریسی کی تنخواہوں میں ایک سو پچاس فی صد اضافہ ہوسکتا ہے تو اساتذہ کی کیوں نہیں۔کالجز کو بی او جی کے ماتحت کرکے معلم اور طالب علم کو زنجیروں میں قید کرنے کی پالیسی کو ختم کردیا جائے ورنہ تعلیم کو بزنس بنانے والوں کا انجام براہی نکلتا ہے اور صوبے بھر کے چار لاکھ طلبا اور ایک سولہ کالجز کے اساتذہ کا سامنا شاید ہی یہ حکومت یا بیوروکریسی کرسکے۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔