اسٹیبلشمنٹ کے سامنے 5 آپشن ہیں۔ سب عمران خان کے خلاف جاتی ہیں

اسٹیبلشمنٹ کے سامنے 5 آپشن ہیں۔ سب عمران خان کے خلاف جاتی ہیں
پی ٹی آئی کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ہمارے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔

آپشنز تو یہاں ہمیشہ ہوتی ہیں۔ جب نہیں ہوتیں تو ڈھونڈ لی جاتی ہیں اور اگر نہیں ملتیں تو تخلیق کر لی جاتی ہیں۔ آج کل اسلام آباد 'آپشنز' کے بخار میں مبتلا ہے کہ جب 'گھبرائی ہوئی' حکومت کا حال اس بوڑھے شخص کی طرح ہے جو اپنے آخری وقت میں کھانسی کے ساتھ خون تھوکتا پھرتا ہے۔ ہر محفل، ہر ملاقات اور ہر نجی کھانے میں ایک ہی تذکرہ ہے: آپشنز کیا ہیں؟

ڈان نے ریڈ زون کو اچھی طرح کھنگالا ہے، اور تمام قسم کے سیاسی حلقوں کے لوگوں سے بات کی ہے، اور تمام ممکنہ آپشنز کی فہرست جاننے کے لئے کچھ پراسرار شخصیات سے بھی سوال جواب کیے ہیں۔ اس تمام گفت و شنید کی بنیاد پر جو کچھ سامنے آیا، وہ کچھ یوں ہے:

آپشن نمبر 1: پی ٹی آئی حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے

یہ آپشن موجودہ پارلیمانی انتظام کے برقرار رہنے اور کسی بڑے اندرونی یا بیرونی جھٹکے کی عدم موجودگی میں ہی ممکن ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ آپشن اس صورت میں قابلِ عمل ہو سکتی ہے کہ پی ٹی آئی وزیر اعظم کو حاصل آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کی تقرری کے تنازعے کو حل کر لے۔ تاہم، صورتحال اتنی سادہ نہیں ہے جتنی پارٹی میں بہت سے لوگ سمجھ رہے ہیں۔ موجودہ منظر نامے میں، آپشن 1 کی صورت میں: (الف) وزیر اعظم عمران خان آئی ایس آئی کے نئے ڈی جی کا نوٹیفکیشن کر دیں گے اور تقرری پر تعطل ختم ہو جائے گا؛ (ب) لیکن پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان آئی دراڑ کے بھرنے کا امکان نہیں؛ (ج) آئی ایس آئی کے نئے ڈی جی سے اس کشیدگی کے سائے میں چارج سنبھالنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت کے لئے ایک حد سے آگے جانے کی توقع نہیں کی جا سکتی؛ (د) طاقتور حلقوں کا 'تھوڑا سا پیچھے ہٹ جانا' حکومت کے لئے مسائل پیدا کرے گا جس کو اپنے کام 'کسی اور' سے کروانے کی عادت پڑ چکی ہے، چاہے وہ ارکان اسمبلی سے معاملات طے کرنا ہو، قانون سازی کے لئے اپوزیشن کا تعاون درکار ہو، بعض اوقات تو کورم کو یقینی بنانے کے لئے بھی معاملات خود نہیں سنبھالے جاتے؛ (ہ) اسٹیبلشمنٹ ان تنازعات سے تنگ آ کر اگلے عام انتخابات سے پہلے اپنی ترجیحات کا جائزہ لے گی اور اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام جماعتوں کو کسی حد تک ہی سہی برابر کا موقع فراہم کر دیا جائے تو یہ پی ٹی آئی کے لئے نقصان کا باعث ہوگا؛ (ی) پی ٹی آئی بمشکل عام انتخابات تک اپنی حکومت برقرار رکھ پائے گی اور اس میں اس دم خم کی کوئی رمق بھی باقی نہیں بچے گی جو اس مہینے کے شروع تک دیکھی جا سکتی تھی جب اس کے اراکین ایک اور پانچ سالہ مدت کی باتیں کیا کرتے تھے۔

آپشن 2: پی ٹی آئی کے حکومت میں رہنے کے ساتھ ہی ان ہاؤس تبدیلی

یہ آپشن اس مفروضے پر مبنی ہے کہ موجودہ نظام خود کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اس آپشن کو یہ دیکھتے ہوئے مرتب کیا گیا ہے کہ کم سے کم تبدیلی لاتے ہوئے بہترین نتائج کیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے لئے پردے کے پیچھے بہت سا اثر و رسوخ استعمال کرنا ہوگا، جتنا 2018 کے انتخابات سے پہلے کیا گیا تھا اور نتیجتاً حکومتی ارکان کی تعداد کو کم کر کے اسے اتنا کمزور کر دیا جائے گا کہ اس سے اپنی تمام باتیں منوائی جا سکیں۔ اس میں اپوزیشن بنچوں کے ساتھ بھی بات چیت ہوگی تاکہ ایک ایسی تفہیم کو یقینی بنایا جا سکے جو انہیں تعاون کرنے پر آمادہ کرے۔ اپوزیشن ظاہر ہے کہ سوال اٹھائے گی کہ "اس سب سے ہمیں کیا ملے گا؟" جواب واضح اور دوٹوک ہونا ضروری ہوگا۔ اگر اس آپشن پر عمل کیا گیا تو کیا ہوگا؟

(الف) اپوزیشن آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے گی؛ آرٹیکل 95 (4) کہتا ہے: "اگر قرارداد قومی اسمبلی کے کل ارکان کی اکثریت سے منظور ہو جاتی ہے تو وزیر اعظم اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہیں گے"؛ (ب) ایوان کو نیا لیڈر منتخب کرنا ہوگا اور حکمران جماعت میں سے ہی کسی کو نامزد کیا جائے گا؛ (ج) پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق، نیا لیڈر منتخب ہوگا کیونکہ حکمران اتحاد اور پارٹی کی جانب سے وہ افراد جوعمران خان کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے، وہ اس نئے امیدوار کے حق میں ووٹ دے دیں گے؛ (د) پی ٹی آئی اتحاد کی قیادت کرتی رہے گی لیکن ایک نئے وزیراعظم کے ساتھ؛ (ہ) یہ صرف اپوزیشن کے ساتھ افہام و تفہیم اور تعاون سے ہی ممکن ہے؛ (ی) عام انتخابات 2023 میں اپنے وقت پر ہوں گے۔

آپشن 3: ایک ان ہاؤس تبدیلی جس میں پی ٹی آئی اپوزیشن میں دھکیل دی جائے

یہ آپشن 2 کا ایک اگلا ورژن ہے اور اس آپشن پر اس صورت میں عمل ہوگا اگر آپشن 2 کے خلاف پی ٹی آئی کے اندر سے کچھ مزاحمت دیکھنے میں آئی۔ اس آپشن کو استعمال کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ پچھلے آپشن کی طرح اتحادی شراکت داروں اور پارٹی ارکان کی مطلوبہ تعداد کو علیحدہ کر لیا جائے اور انہیں نئے اتحاد میں شامل کر دیا جائے۔ اس آپشن کے لئے مذاکرات انتہائی کٹھن ہوں گے جن میں موجودہ اپوزیشن میں سے نئے قائد ایوان کا فیصلہ کرنے کے ساتھ ساتھ عام انتخابات کے حوالے سے ضمانتیں بھی طلب کی جائیں گی۔ آپشن 3 ایک وقت طلب آپشن ہے کیونکہ اس کے اندر کئی عوامل ہیں جو ساقط نہیں اور پوری روانی سے چلنے کے لئے ان سب کو یکجا کرنا ضروری ہے۔ ایک بار جب مطلوبہ تیاری اور ہوم ورک ہو جائے، آپشن 3 کچھ اس طرح آشکار ہو سکتا ہے: (الف) ایک نیا اکثریتی اتحاد بنایا جائے جس میں اتحادیوں اور پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کو شامل کیا جائے؛ (ب) مسلم لیگ (ن) حکومت میں شراکت دار کے طور پر اتحاد میں شامل نہیں ہو سکتی لیکن عدم اعتماد کے ووٹ میں اس کا ساتھ دے دے؛ (ج) نیا اتحاد ممکنہ طور پر پیپلز پارٹی کے گرد اکٹھا ہو جو اس کی سب سے بڑی جماعت ہو اور اتحاد کے دیگر چھوٹے شراکت داروں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی سے الگ ہونے والے دھڑے بھی اس میں شامل ہوں؛ (د) انتخابات 2023 میں اپنے وقت پر ہوں۔

آپشن 4: وزیر اعظم قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیں

آپشن 1، 2 اور 3 کے بڑھتے ہوئے خطرات کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے اور قبل از وقت انتخابات کا فیصلہ کر دیں۔ وزیر اعظم جانتے ہیں کہ ووٹروں کو درپیش مشکلات کے پیش نظر تازہ مینڈیٹ حاصل کرنے کا یہ بہترین وقت نہیں ہو سکتا۔ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر ریکارڈ پر ہیں کہ مہنگائی اگلے سال کے وسط تک کم نہیں ہو سکتی۔ وزیر اعظم کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس وقت اس آپشن کو چننے کا مطلب یہ ہوگا کہ ان سے یہ سب زبردستی کروایا گیا ہے۔ تاہم، وہ سوچ سکتے ہیں کہ دوسرے آپشنز کے مقابلے میں شاید یہ سب سے کم برا آپشن ہے۔ تاہم، اس آپشن کے کچھ ممکنہ ضمنی نتائج ہو سکتے ہیں: (الف) سخت معاشی حالات اور آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کے نتیجے میں تحریکِ انصاف کو عوامی غم و غصے کا سامنا کرنا پڑے گا؛ (ب) حالات کا رخ دیکھتے ہوئے بہت سے 'الیکٹ ایبل' اسے چھوڑ سکتے ہیں؛ (ج) اسٹیبلشمنٹ کے قدم پیچھے ہٹنے سے PTI کے مخالفین کو فائدہ ہوگا اور پی ٹی آئی کو 2018 کے انتخابات میں حاصل بہت سی سہولیات سے ہاتھ دھونا ہوں گے۔

آپشن 5

آپشن 5 فی الحال آپشن نہیں ہے۔

طاقت کے اس کھیل میں حقائق تاثر کی بنیاد پر پہلے ہی عجیب و غریب انداز میں تبدیل ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ ریڈ زون کے اندر، حکومتی اہلکاروں کے چہروں پر پھیلی مسکراہٹیں اور ان کے رعب و دبدبے قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے وفادار، اپنے اصل نظریات کے جذبے سے لبریز، آج بھی ویسے ہی معصومانہ انداز میں پرامید ہیں جیسے 2013 میں تھے۔ لیکن پارٹی میں موجود تجربہ کار ارکان جو ماضی میں اس شہر میں کھیلے گئے طاقت کے بے رحم کھیل میں بھالوں اور برچھیوں کا سامنا کر چکے ہیں، یہ جانتے ہیں کہ ہوا یکدم سرد ہو چکی ہے اور یہ ان کے لئے اچھا شگون نہیں۔ یہ جھکے ہوئے کندھے اور چہرے پر موجود خفیف سا تاثر، یہ وہی کہانی سنا رہے ہیں جو انہوں نے پہلے بھی کئی بار سن رکھی ہے۔ چیزیں بدلتی ہیں۔ لیکن زیادہ نہیں۔

لہٰذا آپشنز؟ آپشنز ہمیشہ ہوتی ہیں۔

 

یہ مضمون فہد حسین نے ڈان اخبار کے لئے لکھا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔