سیاسی تبدیلی ناگزیر ہو چکی۔ عمران کے جانے کی چار صورتیں کیا ہو سکتی ہیں

سیاسی تبدیلی ناگزیر ہو چکی۔ عمران کے جانے کی چار صورتیں کیا ہو سکتی ہیں
عمران خان حکومت تین سال مکمل کر چکی ہے۔ دراصل اس حکومت کو ایک سویلین حکومت کہنا بھی نامناسب ہوگا کیونکہ یہ ایک نیم سویلین اور نیم فوجی اقتدار کے اشتراک کا منصوبہ ہے جس کی داغ بیل 2014 میں ہی رکھی جا چکی تھی۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت سے جتن کیے گئے جن کا خمیازہ آج پاکستان کے 22 کروڑ عوام بھگت رہے ہیں۔ 2008 سے 2017 تک ریاستی طاقت سویلین اداروں کو بتدریج منتقل ہوتی رہی اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں ایک حقیقی جمہوریت کے پنپنے کا امکان روشن ہو چکا تھا۔ اس تاریخی عمل کو روکنے کے لئے عمران خان اور ان کے سادہ لوح نعروں کا بھرپور استعمال کیا گیا اور بالآخر پانامہ پیپرز کے عالمی سکینڈل نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے دو ستونوں فوج اور عدلیہ کو ایک نادر موقع فراہم کیا جس کے تحت سویلین بالادستی قائم ہونے کے پیچیدہ عمل کو تہ و بالا کر دیا گیا۔

افسوس یہ ہے کہ پاکستان کے کارپوریٹ میڈیا اور سیاسی حلقوں نے بھی اس منصوبے میں اسٹیبلشمنٹ کا مکمل ساتھ دیا اور آج وہ اپنے کیے کو بھگت رہے ہیں۔ اشرافیہ اور اس میں شامل طبقات کے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے وہ تو اپنی جگہ، ملکی معیشت قانون کی بالادستی اور شہری آزادیوں پر جو قدغنیں عائد کی گئی ہیں، ان کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ مارشل لا ادوار میں پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنا اور سنسرشپ کو فروغ دینا تو رواج تھا لیکن ایک نیم سویلین حکومت کی آڑ میں یہ سب کرنے کا تجربہ حالیہ تاریخ میں ایک نئی روایت ہے جس کو بدلنے میں شاید ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

اس طرح کے غیر فطری اور انجینیئرڈ نظام زیادہ دیر چل نہیں پاتے کیونکہ ان کی عوامی ساکھ پر مستقل سوالیہ نشان موجود رہتا ہے۔ مارشل لا کے ادوار میں یہ کام نسبتاً آسان ہوتا ہے اور پاکستانی عوام نے اس کو چار بار چار و ناچار تسلیم بھی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب ریاست کے دو بڑے ستون بھی اس امر کو بادلِ نخواستہ تسلیم کر رہے ہیں کہ اس ہائبرڈ نظام کو ایک نئی شکل دینا لازم ہو گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ اور فوج دونوں کی ساکھ روز بروز پامال ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس وقت تک عدلیہ کے کیے گئے فیصلوں پر نہ صرف تنقید بلکہ سسٹم کے اندر سے ہی آوازیں اٹھ چکی ہیں جن سے ایک آزاد عدلیہ کا بھرم رکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے اور بیانات ایک گواہی بن چکے ہیں اور مستقبل کے مؤرخ کے لئے بہت سارا مواد بھی پیش کر چکے ہیں جس کو جھٹلانا اب ناممکن ہو گیا ہے۔

اسی طرح نئے ISI سربراہ کی تقرری کے عمل کے دوران وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان تناؤ نے بھی واضح کر دیا ہے کہ کس طرح پاکستان کی قومی سلامتی کا ضامن ادارہ بھی سیاسی تبادلوں، تقرریوں کی زد میں ہے۔ عدلیہ تو کبھی بھی آزاد نہیں رہی لیکن افواجِ پاکستان نے کبھی اپنے اندرونی نظم و ضبط پر آنچ نہیں آنے دی۔ لیکن اس بار کئی ہفتے عجیب و غریب افواہیں ملک میں اڑتی رہیں جو کہ اس ادارے کی تاریخ میں ایک نئی روش متعارت کروا گئی کیونکہ یہ سب کچھ سیاسی اکھاڑے میں ہو رہا تھا۔ اب چونکہ یہ مسئلہ بھی اپنے حل کو پہنچ چکا ہے، اس لئے ادارے کو ایسے اقدامات اٹھانا ہوں گے جس سے کہ ناصرف اس کی ساکھ بحال ہو بلکہ غیر جانبداری کا بھرم بھی قائم رہے۔

اس لئے سیاسی تبدیلی یا جسے انگریزی میں regime change کہا جاتا ہے، اب ناگزیر ہو چکی ہے۔ اپنے تین سالہ اقتدار کی نااہلی اور خوشنما وعدوں کی عدم تکمیل عمران خان کے گلے کا طوق بن چکی ہیں اور آج وہ مکمل تنہائی کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ اپوزیشن کی 'کرپٹ' جماعتیں تو ایک طرف، ان کے اپنے اتحادی اور صفِ اول کے ساتھی جن میں جہانگیر ترین کا نام سرِ فہرست ہے ان کے ساتھ کھڑے دکھائی نہیں دے رہے۔ اگر عمران خان نے اپنا دورِ حکومت مکمل کیا تو یہ صرف ان کی کرکٹ والی خوش قسمتی اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی متبادل نہ ہونے کا نتیجہ ہوگا۔ وگرنہ ان کو سیاسی میدان سے نکالنا کبھی بھی اتنا آسان نہ تھا جتنا اب ہے۔

سیاسی تبدیلی کا یہ عمل کئی صورتیں اختیار کر سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے لئے سب سے آسان اور محفوظ طریقہ ان ہاؤس تبدیلی ہے جس کے لئے اس کو پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر چھوٹی جماعتوں کی مکمل حمایت بھی حاصل ہوگی۔ لیکن اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ہیں جو ابھی تک بضد ہیں کہ ملک میں نئے انتخابات ہی ہر مسئلے کا حل ہیں۔ ان ہاؤس تبدیلی بھی ملک کو نئے انتخابات کی طرف ہی لے جائے گی لیکن وزیر اعظم کا مشترکہ امیدوار تاحال دستیاب نہیں۔

دوسرا امکان یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان خود سے اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کر دیں اور دوبارہ عوام سے مینڈیٹ لینے کے لئے تیار ہو جائیں لیکن ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا ماسوائے ذوالفقار علی بھٹو کے جنہوں نے 1977 میں مقررہ مدت سے ایک سال پہلے انتخابات کروائے۔ اس کے علاوہ کوئی ایسی نظیر پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ PTI کی گرتی ہوئی مقبولیت کے باعث بھی شاید ایسا کرنا ممکن نہ ہو۔

سیاسی تبدیلی کا تیسرا طریقہ عدالتوں کے ذریعے ممکن ہے جہاں پر بیرونی فنڈنگ کیس یا پھر APS پشاور کی رپورٹ پر کارروائی نہ کرنے کی پاداش میں وزیر اعظم کو اقتدار سے الگ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کے ساتھ کیا جا چکا ہے۔ لیکن اس میں بھی بہت سی قباحتیں سامنے آ سکتی ہیں۔ خصوصاً اس صورتحال میں جہاں پر افواجِ پاکستان غیر جانبداری کا تہیہ کر چکی ہوں۔

سیاسی تبدیلی کا ایک مظہر اور بھی ہو سکتا ہے اور وہ اس صورت میں جب عمران خان خود سے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کو بدل دیں۔ لیکن اس کے نتیجے میں جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہو سکتا ہے، شاید وہ اس کے لئے تیار نہ ہوں۔ اگلے چند مہینوں یا شاید ہفتوں میں ہی حالات کسی نہج پر پہنچ جائیں گے جہاں مندرجہ بالا اقدامات میں سے ایک پر عملدرآمد لازمی ہو جائے گا۔

عمران خان کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ اس سیاسی طوفان کا مقابلہ سیاسی طریقے سے ہی کریں لیکن چونکہ وہ ایک روایتی سیاستدان نہیں اس لئے ان سے ایسی کوئی توقع کرنا کارِ عبث ہوگا۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اسلام آباد میں ردوبدل کے بعد کیا ملک دوبارہ جمہوری عمل کی طرف گامزن ہوگا؟ کیا اگلے انتخابات آزادانہ، منصفانہ اور مشینوں کی دھاندلی سے پاک ہوں گے؟ کیا پاکستان کی روایتی سیاسی پارٹیوں کے پاس ملک کو مسائل سے نکالنے کے لئے کوئی منصوبہ ہے؟ اور کیا ایک لاغر اور تباہ حال پارلیمنٹ سویلین بالادستی کے ہدف کو پورا کرنے کی سکت رکھتی ہے؟ ان سب سے بڑا سوال لیکن یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ نے اس ناکام تجربے سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ ان تمام سوالوں کا جواب فی الحال نفی میں ہے بلکہ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ملک میں ایک اکثریتی مسلک پر مبنی سیاسی گروہ کو باقاعدہ ریاستی طاقت کے ساتھ میدان میں اتارا جا رہا ہے، جس کے نتائج انتہائی بھیانک ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے سے جمہوریت کو کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا۔

مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔