'سوچیں ان کے ساتھ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں کیا ہوگا': PTI اب شکاری نہیں شکار ہے

'سوچیں ان کے ساتھ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں کیا ہوگا': PTI اب شکاری نہیں شکار ہے
واقعات تیزی سے رونما ہو رہے ہیں۔ نکتوں کو باہم ملا کر ایک خاکہ واضح ہونے لگا ہے۔ سرگوشیاں بلند ہوتی جا رہی ہیں اور قدموں کی چاپ قریب آ رہی ہے۔ ریڈ زون کے اندر ہوا کچھ سرد ہو گئی ہے، راتیں لمبی اور مزاج کچھ بگڑا بگڑا سا ہے۔

خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی ذلت آمیز شکست نے پارٹی کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ یہاں جماعت پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں واضح اکثریت سے فتح اور پھر عام انتخابات میں دھماکے دار کامیابی کی باتیں کر رہی تھی۔ خیبر پختونخوا کی تو کوئی فکر ہی نہیں تھی۔ یہ عمران خان کا گڑھ تھا۔ تمام شک و شبے سے بالاتر عمران خان کا گڑھ۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں عمران خان ایک سیاسی دیو تھا اور اس کے مخالفین وہ بونے تھے جو اس کے مینڈیٹ کا نام سن کر ہی ڈر کے بھاگ جاتے تھے۔ سب کچھ PTI کے قابو میں تھا۔ سب کچھ ترتیب سے چل رہا تھا۔ اور پارٹی سمجھ رہی تھی کہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بل پر وہ عام انتخابات میں اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرے گی۔ سب کچھ بہت ہی شاندار، خوبصورت بلکہ جادوئی تھا۔

اور پھر، یہ سب دھڑام سے نیچے آ رہا!

آن کی آن میں، خیبر پختونخوا نے PTI کو اٹھا کر واپس حقیقت کی دنیا میں پٹخ ڈالا۔ ناقابلِ شکست سمجھے جانے والوں کے ساتھ وہ ہو چکا تھا جو ان کے لئے ناقابلِ تصور تھا اور اب یہ ان کے لئے ناقابلِ برداشت تھا۔

اب وہی ہو رہا ہے جو عام طور پر ہوتا ہے اور جس کی توقع کی جا رہی تھی کہ پارٹی خود کو دلیر دکھانے کے لئے تحقیقات کا حکم دے رہی ہے، وضاحتیں طلب کر رہی ہے اور بلی کے بکرے تلاش کر رہی ہے۔ لیکن پارٹی میں موجود سمجھدار لوگ سمجھ رہے ہیں کہ کے پی میں جو شروع ہوا ہے، وہ شاید یہیں ختم نہیں ہوگا۔ جب مرکزِ ثقل ہل جاتا ہے تو سب ہل جاتا ہے۔ اپنے قلعے میں شگاف کے بعد PTI شاید اب اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔ دشمن قلعے میں داخل ہو چکے ہیں لیکن ابھی دیوانِ خاص تک ان کی رسائی نہیں ہو سکی۔ حکومت اب بھی لڑ سکتی ہے اور اپنے خول میں بند ہو کر اپنے دشمن سے بچ سکتی ہے، لیکن لڑائی کی ہئیت بہرحال تبدیل ہو چکی ہے۔ اب PTI شکاری سے شکار میں بدل چکی ہے۔

ریڈ زون کی گہرائیوں میں، نئی سامنے آتی حقیقتوں کے خدوخال واضح ہو رہے ہیں۔ پاکستانی سیاست کے اس نئے مرحلے کے یہ ابھی ابتدائی ایام ہیں لیکن حالات میں ممکنہ تبدیلی ماضی کے مقابلے میں بڑی واضح طور پر مصنوعی ہے۔ اس چھوٹے سے طوفان کی وجہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری پر ہوا تنازع ہے۔ حکومتی وزرا اور حمایتیوں نے بڑی تندہی سے یہ تاثر بنانے کی کوشش کی تھی کہ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا اور سب ٹھیک ہو چکا تھا۔ ان کے مطابق یہ چائے کی پیالی میں طوفان تھا۔ لیکن ایسا تھا نہیں۔ جس انداز سے اس تنازعے نے اس تعلق کو برقرار رکھنے والے تاروں کو توڑ کر اس جسد کے مختلف اعضا کو جوڑے رکھنے والے پٹھوں کو جھنجھوڑا، یہ لوگ یا تو دیکھ نہیں پائے یا پھر جانتے بوجھتے نظر انداز کرتے رہے۔ اعضا جدا نہیں ہوئے لیکن اندرونی توڑ پھوڑ نے ان پر بہت برا اثر چھوڑا ہے۔ یہ اثر اب بھی پڑ رہا ہے۔ لیکن کوئی سامنے آ کر نہیں۔ ریڈ زون میں پائی جانے والی سرد مہری سائیبیریا سے آنے والی سرد ہواؤں نے یکایک پیدا نہیں کی بلکہ اس میں موجود گرمائی میں بتدریج کمی آتی گئی ہے کیونکہ تھرمو سٹیٹ اب تبدیل ہو چکا ہے۔ خیبر پختونخوا میں جو ہوا، وہ ان بدلے ہوئے حقائق کا ایک مظہر ہے۔ PTI کو اپنے گھر میں ہونے والی اس بدترین شکست کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ذرائع کے مطابق سب سے اہم اس مدد کا نہ ملنا ہے جو اس کو ہر بار میسر ہوتی تھی۔ ہاتھ پیچھے کھینچ لینے کی پالیسی اپنائی گئی کہ سیاسی سٹیک ہولڈر بغیر کسی حمایت، امداد یا سہولت کاری کے یہ معرکہ خود لڑیں۔

"سوچیں ان کے ساتھ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں کیا ہوگا"، لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک ن لیگی رکن پارلیمنٹ نے کہا۔ "ہم ان کا انتظار کر رہے ہیں"۔

پشت سے ہاتھ ہٹا لینے کی پالیسی اپنا کام ناصرف خیبر پختونخوا میں دکھا رہی ہے بلکہ پنجاب اور اسلام آباد میں بھی اس کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔ متعلقہ افسران اور سیاستدانوں سے بات چیت میں اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ادارے کے اندر ٹاپ پر بیٹھے فیصلہ ساز سیاسی بندھنوں سے بڑی حد تک قدم پیچھے ہٹا رہے ہیں۔ پنڈولم آہستہ آہستہ واپس اپنی جگہ پر آ رہا ہے۔ اور یہ اشارے پڑھنے والے انہیں ایسے پڑھ رہے ہیں جیسے یہ کوئی بہت ہی دلچسپ کتاب ہو۔

ایسا ہی ایک شخص لندن میں بیٹھا ہے۔ پارٹی ذرائع اب تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ اپنی پوزیشن میں کچھ نرمی لایا ہے اور اب ایسے مذاکرات کا حصہ بننے کے لئے تیار ہے جن کے نتیجے میں یہ قومی اسمبلی ختم ہو اور اس کے فوراً بعد نئے انتخابات کروائے جائیں۔ یہ پیچیدہ وقت میں حساس معاملات ہیں اور مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف سطحوں پر مختلف النوع مذاکرات جاری ہیں۔ اپوزیشن میں ایک خاموشی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے کچھ معمول سے ہٹ کر بیانات دیے ہیں جن سے تاثر ملتا ہے کہ شاید نیا سیاسی جال بننے میں کچھ رکاوٹیں آئی ہوں لیکن متعدد سیاسی ذرائع کے مطابق یہ عمل فی الحال پٹڑی پر ہے۔ اور یہ سب کچھ اگلے چند ماہ میں ہو جانا ہے۔

خیبر پختونخوا میں لگنے والے دھچکے نے اس جال کو ایک نیا خلا فراہم کر دیا ہے۔ جب جڑیں ہی اتنی کمزور ہو تو شاخیں کب تک قائم رہ سکتی ہیں؟ معیشت کی زبوں حالی نے اب سیاسی تاوان وصول کرنا شروع کر دیا ہے۔ پنجاب میں حکومتی جماعت کے قانون ساز بے قرار ہو رہے ہیں۔ یہ ہوا میں خطرے کو سونگھ رہے ہیں۔ کچھ نے ن لیگ کے ساتھ راز و نیاز شروع کر دیے ہیں۔ جنوری اور فروری PTI کی گردن پر بہت بھاری ثابت ہوں گے۔

یہی وجہ ہے کہ PMLN بھی اپنے اندر بیانیوں کی جنگ کو کچھ ٹھنڈا کر کے عوامی سطح پر اتحاد کا تاثر دے رہی ہے۔ ریڈ زون ذرائع کے مطابق پارٹی صدر شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار بننے کے امکانات روز بروز روشن تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک لیگی رکن کا کہنا ہے کہ لوہا گرم ہے اور ہمیں اسی وقت ہتھوڑا مارنا چاہیے۔ ان کا ماننا ہے کہ دیر آید درست آید کے مصداق پارٹی نے اب ایسے اقدامات لینا شروع کر دیے ہیں جن کے ذریعے یہ اکتوبر میں پیدا ہونے والی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہو سکے۔

بات چیت میں مارچ کے مہینے کا تذکرہ تواتر سے آنے لگا ہے۔ حکومتی جماعت کے کچھ قانون سازوں کو بھی لگتا ہے کہ ان کا وقت آنے والا ہے۔ کب، کیسے، یہ تو کم ہی لوگ جانتے ہوں گے لیکن معاملات اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ بڑے فیصلے شاید پہلے ہی کر لیے گئے ہیں اور اب تفصیلات پر بحث ہو رہی ہے۔

لیکن جیسا کہ ہمیشہ کہا جاتا ہے، لبوں تک جام کے آنے میں کئی لغزشیں باقی ہیں۔ تحریکِ انصاف اہرام کی چوٹی پر بیٹھی ہے اور اس کے ہاتھ میں وسائل کا ایک خزانہ موجود ہے۔ اس کی لیڈرشپ کے پاس معلومات کے ایسے ذرائع ہیں جو اسے ریڈ زون میں کیا ہو رہا ہے اس سے باخبر رکھتے ہیں۔ یہ بھی اپنی چالوں پر کام کر رہی ہے، یہ جانتے ہوئے کہ وقت کم ہے اور مسلسل کم ہو رہا ہے۔ یہ آرام سے نہیں بیٹھی۔

جوں جوں ہوا سرد ہو رہی ہے، راتیں لمبی اور مزاج بگڑ رہے ہیں، متحارب قوتیں جانتی ہیں کہ تلواریں نکال کر سیاسی کشت و خون کے ایک اور سال میں داخل ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔




فہد حسین کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔