• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعہ, جنوری 27, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

بیرون ملک مقیم پاکستانی اور ہندوستانی آمروں اور رجعت پسندوں کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟

ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور حالیہ وزیراعظم نریندر مودی اور پاکستان میں پی ٹی آئی اور سابقہ وزیراعظم عمران خان دونوں درج بالا تاثر قائم کرنے میں نسبتاً کامیاب رہے ہیں۔ دونوں کے دونوں داخلی، معاشی بحران کی ذمہ داری حزب اختلاف اور کسی ایک یا دوسری کمیونٹی پر تھوپتے ہیں اور دونوں ہی میڈیا امیجز، سیاسی ماڈلنگ، تصویر بازی، آواز سازی اور سوشل میڈیا کو استعمال کروانے کے ماسٹر ہیں۔

امجد نذیر by امجد نذیر
مئی 20, 2022
in تجزیہ
28 0
0
بیرون ملک مقیم پاکستانی اور ہندوستانی آمروں اور رجعت پسندوں کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟
33
SHARES
157
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

سوال یہ ہے بیرونِ ملک مقیم دوہری شہریت کے حامل پاکستانی اور ہندوستانی شہری اپنے اپنے ملکوں کے آمرانہ، تحکمانہ اور رجعت پسند حکمرانوں یا پارٹیوں کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟ ایسے کون سے سیاسی، سماجی اور معاشی عوامل ہیں جو انہیں درج بالا رحجانات کی طرف مائل کرتے ہیں؟

دراصل غربت اور بے روزگاری کیساتھ ساتھ شناخت کے بحران میں مبتلا پاکستانی یا ہندوستانی جب امریکہ، یورپ یا مشرقِ وسطی میں روزگار کی غرض سے ہجرت کر جاتے ہیں تو اپنے ابتدائی سماجی رابطوں میں ہی شناخت کا سوال ایک بار پھر اُن کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ گویا بقول منیر نیازی:

RelatedPosts

‘ایک آدھ مزید گرفتاری کے بعد عمران خان مذاکرات کی میز پر آ جائیں گے’

عمران خان پر تنقید کے بعد سوشل میڈیا ٹرولنگ نے قاسم علی شاہ کو رُلا دیا!

Load More

اِک اور دریا کا سامنا تھا مُنیر مُجھ کو

میں ایک دریا کے پار اُترا تو مَیں نے دیکھا

سچ تو یہ ہے کہ ہر دو ممالک میں متفرق قومیتیں آباد ہیں اور مذکورہ بالا افراد کی اجتماعی قومی شناخت کے علاوہ اپنے ملک کے اندر بھی ان کی کوئی نہ کوئی مادری زبان، ثقافت، آبائی وطن اور شناخت ہوتی ہے، جسے وہ بہت عزیز رکھتے ہیں۔

لیکن نئی شہریت اختیار کرتے ہی ایک بڑے سماجی دائرے میں ان کی آبائی، لسانی اور علاقائی شناخت قدرے کم اہم اور بعض صورتوں میں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ ماسوائے گھریلو بول چال کے، زیادہ تر لوگ آپس میں ہندی یا اردو میں ہی بات چیت کرتے ہیں۔ شناختی خلا پر کرنے کیلئے ان کی اجتماعی قومی اور مذہبی شناخت غالب شناخت کے طور پر اُبھر کر سامنے آ جاتی ہے اور وہ عموما پاکستانی یا ہندوستانی اور ہندو یا مسلمان کے طور پر جانے جاتے ہیں یا جانے جانا پسند کرتے ہیں۔

اپنے پس ماندہ خاندان کی کفالت اور خوشحالی میں اپنا حصہ ڈالنے کیساتھ ساتھ اب وہ ملکی معاملات میں اپنی رائے بھی شامل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ پیسہ ہے جو وہ اپنے خاندانوں کی کفالت یا سرمایہ کاری کیلئے اپنے وطن بھیجتے ہیں۔ مِلا جُلا کر یہ رقم اربوں ڈالروں تک پہنچتی ہے۔ ہندوستان میں اس کا تخمینہ 87 ارب ڈالر اور گذشتہ برس پاکستان میں 31 ارب ڈالر کے قریب لگایا گیا ہے جو دونوں ممالک کے زرمبادلہ میں خطیر اضافہ کرکے اُنہیں اپنی ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے میں بھرپور مدد دیتا ہے۔ محنت سے کمائے ہوئے اپنے سرمائے کے محفوظ ہونے اور بڑھاتے رہنے کی فکر اُنہیں شب وروز دامن گیر رہتی ہے۔

گویا وِلایت میں دو چار سال یا زیادہ عرصے کی تگ ودو کے بعد جب وہ تھوڑا بہت روزگار اور گھر بار کی طرف سے مطمئن ہونے لگتے ہیں تو اُنہیں وہاں پر اپنی ثانوی شہریت کا احساس ستانے لگتا ہے، ناسٹلجیا، تنہائی اور دربدری تکلیف دیتی ہے تو وہ اپنے ملک اور قوم کے سیاسی اور معاشی مسائل کا خیال کرکے اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنا پر سوچتے ہیں کہ آخر ان کا ملک تمام تر وسائل اور صلاحیتیں رکھنے کے باوجود سماجی اور اقتصادی لحاظ سے اس قدر پسماندہ کیوں ہے؟ کیوں وہ دیار غیر میں فقط دو وقت کی روٹی کیلئے تنگی، تُرشی اور بیگانگیت میں جیون کرنے پر مجبور ہیں؟

تو وہ شعوری اور لاشعوری طور پر کسی نہ کسی پر اِلزام دھرنا چاہتے ہیں، کسی کو مُوردِ اِلزام ٹھہرانا چاہتے ہیں، تب اُنہیں ایسے سیاستدان بڑے بھلے معلوم ہوتے ہیں جو ناصرف اپنے آپ کو دیش بھگت، بے لوث اور موروثی سیاست سے آزاد  ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں بلکہ ملک کے سماجی اور اقتصادی بحران کا واحد سبب اپنے مخالفین کی لوٹ مار، کرپشن اور نااہلی کو قرار دیں۔

ایسے پیچیدہ مسائل کے اسباب ومحرکات کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کا نہ ہی ان کے پاس وقت ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ایسے امور میں دلچسپی لیتے ہیں بلکہ پرسیپشن، وائسز اور امیجز کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے جو لیڈر گڑگڑاتی، کڑکڑاتی اور گونجتی ہوئی آواز میں تقریریں جھاڑے، دین دھرم کی سربلندیوں کے نعرے لگائے،راتوں کو سنہرے خواب اور دنوں کو سبز باغ دکھائے اور اپنے اقتدار آتے ہی ماضی کے عظیم اسلامی یا ہندو دور کے پلٹ آنے کی وعید سنائے اور بیک وقت گم گشتہ داستانوی اور جدید دور ِانقلاب اور مغرب کے ترقیاتی ماڈل کو اس طرح خلط ملط کرے جیسے ایسے ہی ایک عالیشان دور حکومت کی کنجی اس کی جیب میں پڑی ہو تو حقائق کے برعکس بیرون ملک لوگ دیوانہ وار اُسے سراہنے لگتے ہیں۔ جب ایسے دورِ حکومت کے آجانے کی شرط اس کے اپنے دور اقتدار کے ساتھ گندھی مِتھی ہوں تو باہر مقیم شہری اُسے دیوتا یا مسیحا سمجھ کر تن من دھن سے اُس کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔

ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور حالیہ وزیراعظم نریندر مودی اور پاکستان میں پی ٹی آئی اور سابقہ وزیراعظم عمران خان دونوں درج بالا تاثر قائم کرنے میں نسبتاً کامیاب رہے ہیں۔ دونوں کے دونوں داخلی، معاشی بحران کی ذمہ داری حزب اختلاف اور کسی ایک یا دوسری کمیونٹی پر تھوپتے ہیں اور دونوں ہی میڈیا امیجز، سیاسی ماڈلنگ، تصویر بازی، آواز سازی اور سوشل میڈیا کو استعمال کروانے کے ماسٹر ہیں۔

دونوں ہی عوام کے دلوں میں گھر کرنے کیلئے نت نئے ذرائع استعمال کرتے ہیں جس میں رقص وموسیقی بھی شامِل ہیں۔ دوسرے ذرائع نہ ہونے یا وقت کی تنگی کا شکار بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے لئے یہ ہتھیار تیر بہ ہدف کام کرتا ہےـ عوامی زبان استعمال کرتے ہوئے جب وہ اپنے غیر ترقی یافتہ ہونے کی وجوہات اور ترقی یافتہ بننے کا سادہ ترین فارمولا عوام کے سامنے رکھتے ہیں تو جلد ہی نیم خواندہ اور سادہ لوح لوگ اُن پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں۔

یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ خوشحالی شکار کرنے کیلئے باہر جانے والوں کی اکثریت نیم خواندہ اور ناخواندہ لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ سیاسی اور معاشی دَقیقہ فہمیوں تک نہ ان کی پہنچ ہوتی ہے نہ یارا۔ اُنہیں موٹی موٹی باتیں، تصویریں، شاٹس، امیجز، سیچویشنز اور میمز بہت اپیل کرتے ہیں۔

آرٹیکل پڑھنے اور باقاعدہ خبریں اور تبصرے سننے کی بجائے وہ زیادہ تر سوشل میڈیا کی زرد صحافت پر ہی اِعتماد کرتے ہیں۔ اور جو تھوڑے بہت پڑھے لکھے لوگ ہیں بھی تو وہ یا تو اپنے ثانوی ملک کی سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں یا کم از کم اپنے آبائی ملک کے رجعت پسند لیڈرز کے آمرانہ اور سطحی بیانیوں پر یقین نہیں رکھتے مگر چونکہ ان کی تعداد نسبتاً کم ہے اس لئے توجہ اور خاطر میں اکثریتی رائے ہی آتی ہے جس کے مطابق آج کل ہندوستان میں نریندر مودی اور پاکستان میں عمران خان کا طوطی بول رہا ہے۔

زیر بحث سیاستدانوں کے مقابل بہت سے روایتی سیاستدان نئی میڈیا تکنیکیں، بالخصوص سوشل میڈیا کے استعمال میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں جبکہ مودی اور عمران خان جیسے کایاں رہنمائوں کی اندرون ملک اور بیرون ملک آئی ٹی ماہرین اور ماہر فوٹو گرافروں کی پوری پوری ٹیمیں ہیں جو ایک تو بَرق رفتاری سے ان کی طرح طرح کی تصاویر، انٹرویوز اور تقریروں کے تراشے بیک گرائونڈ کلر اور میوزیکل ایفیکٹس ڈال ڈال کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہتے ہیں اور دوسری طرف طرح طرح سے مخالفین کی منفی تاثر دینے والی ویڈیوز اور فوٹو شاپڈ امیجز بنا بنا کر ان کے بارے میں رائے عامہ خراب کرتے رہتے ہیں۔ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا بشمول ٹیٹر، فیس بک اور اِنسٹا گرام کی اشتہار بازی پر یہ دونوں لیڈرز کروڑوں روپے ماہانہ خرچ کرتے ہیں۔

حقیقتاً نریندر مودی اور عمران خان دونوں کے دونوں، نیم خونداہ، بے مطالعہ، سطحی اور مذہبی انتہا پسند شخصیات ہیں جو شاید تاریخ، جغرافیہ، معیشت اور خارجہ تعلقات کی ابجد سے بھی لا علم ہیں۔ خان صاحب تو اس معاملے میں کئی بالشت آگے ہیں۔ ماضی قریب تک وہ ایک بھی بامعنی اور مکمل جملہ نہیں بول سکتے تھے لیکن دوںوں کے دونوں ایک طرح کے خود ساختہ “سٹار” یا “ماڈل” ہیں جو اپنے آپ کو تخلیقی انداز واسلوب سے لوگوں کے سامنے پیش کرنے کا فن جانتے ہیں۔ ایک کرکٹ پلٹ مذہب فروش سیاستدان ہے اور دوسرا مسلمان مخالف، مسلم کش، راشٹریہ پسند اور ہندوتوا فروغ نیتا ہے۔

خان صاحب نے سیاست میں آنے اور وزیراعظم بننے سے پہلے اور بعد تک عوامی مقبولیت حاصل کرنے کیلئے کچھ روایتی مگر کئی ایک نئے انداز بھی استعمال کئے مثلاً شلوار قمیض اور کھیڑی پہننا، خزاب لگے بالوں کا کچھ بکھرا ہوا اور کچھ سنورا ہوا سٹائل بنا کر بے نیازی دکھلانا، عوامی مقامات پر گریبان اور کف کھول کر سادہ منش اور عام آدمی نظر آنا، کبھی کبھار انتہائی غریب لوگوں کے ساتھ بازاروں یا لنگر خانوں میں تصویریں بنوانا، کچھ صحافیوں اور لکھاریوں سے اپنی سادگی، ایمانداری اور بالخصوص جرات اور جوانمردی کے جھوٹے سچے قصے کہانیاں اور واقعات لکھوانا اور سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے آپ کو مقبول ترین اور وسیع الحیات آدمی ثابت کروانا۔

اس ضمن میں کعبۃ اللہ اور حرم شریف کی زیارت، صفاہ ومروہ کی سعی ہو یا حجر اسود کے بوسوں جیسے تمام امیجز بڑی آسانی سے ایک مسلمان کا دل موہ لیتے ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ صرف ٹویٹر پر عمران خان کے فالورز کی تعداد ایک کروڑ چھیاسٹھ لاکھ سے بڑھ کر ہے اور رئیل ٹائم یوٹیوب سبسکرائبرز کی تعداد 58 لاکھ چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے، جو کسی بھی لیڈر کے فالورز سے کہیں زیادہ ہے۔

سرحد پار بھارت کا پردھان منتری نریندر مودی، برعکس عمران خان کے، انتہائی غریب اور پسماندہ کنبے اور پس منظر سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنے اعلٰی و ارفع، پاکباز، پاک دامن، یوگا پسند یوگی ہونے اور اَدوّیتا پسند راسخ العقیدہ ہندو “امیج بلڈنگ” میں اعلیٰ پائے کا فنکار ثابت ہوا۔ ماتھے پر تِلک لگا، گیروے رنگ کا لباس اور کھڑاونج پہن کر، گنگا جمنا کنارے پوجا پاٹ کرنی ہو، رتھ یاترا کے ڈرامائی طائفے یا میلہ کمبھ میں شمولیت ہو، ہمالیہ میں 11000 فٹ کی بلندیوں پر کادرناتھ کی غاروں میں ظاہری کشٹ اور یوگا کرنا ہو یا سادھو صفت رنگ روپ بنانا ہو، وہ ایسے تمام اِمیجز بیچنے کا ملکہ رکھتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں ہندو اسے سپرمین سے کم نہیں سمجھتے جو تمام مسائل پلک جھپکنے میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے (بلکہ مودی بطور سپرمین کارٹون سٹوری بھی بھارتی بچوں میں پاپولر ہے)۔

گودھرا حادثے کے بعد مسلمانوں پر الزام دھر کر چِتاؤں کی احمد آباد میں پریڈ کروانا ہو، بابری مسجد منہدم کروا کے مسلم تاریخ سے علامتی اِنتقام ہو یا پھر اُسی مقام پر رام مندر کی بُنیاد ڈال کر گیان دھیان کی سمادھی رچانا ہو، مودی ایسے تمام فنون میں مہارت رکھتا ہے۔ نریندرا مودی کے رئیل ٹائم ٹوئٹر فالؤرز کی تعداد دنیا کے کسی بھی سیاسی لیڈر سے بڑھ کر کوئی ساڑھے سات کروڑ تک جا پہنچتی ہے۔

قصہ مختصر پاپولزم کے اس نئے دور میں میڈیا اور سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم ہے اور مذکورہ بالا دونوں لیڈرز میڈیا اور سوشل میڈیا کے موثر استعمال کا فن جانتے ہیں جو عام لوگوں کو زمینی حقائق سے دور خواب وفریب کی نئی دنیا میں لے جاتے ہیں۔

Tags: dictatorsImran KhanIndiansmodioverseas Pakistanisreactionariesآمریتڈکٹیٹررجعت پسندیعمران خاننریندر مودی
Previous Post

2017ء میں رینجرز کے ہاتھوں لاپتہ اظہر حسین کی معمر والدہ آج تک اپنے بیٹے کی راہ تک رہی ہے

Next Post

بلوچ نوجوانوں کے بعد عورتوں کی جبری گمشدگی کا خطرناک سلسلہ شروع کر دیا گیا

امجد نذیر

امجد نذیر

مصنف سماجی اور ترقیاتی تجزیہ کار ہیں ـ وہ اسلام آباد کے ادارہ برائے تحقیق و ترقی (ادراق) سے وابستہ ہیں

Related Posts

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 26, 2023
0

16 سال قبل میں محمد نواز شریف کے ساتھ ان کے خاندان کے مشہور پارک لین فلیٹس میں بیٹھا جیو نیوز کے...

علی وزیر اور راؤ انوار کے لئے ملک میں الگ الگ قانون ہے

علی وزیر اور راؤ انوار کے لئے ملک میں الگ الگ قانون ہے

by طالعمند خان
جنوری 26, 2023
0

پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی شروع دن سے ایک ہی پالیسی رہی اور وہ ہے؛ 'ہم یا کوئی نہیں'۔ لیکن اب حالات...

Load More
Next Post
بلوچ نوجوانوں کے بعد عورتوں کی جبری گمشدگی کا خطرناک سلسلہ شروع کر دیا گیا

بلوچ نوجوانوں کے بعد عورتوں کی جبری گمشدگی کا خطرناک سلسلہ شروع کر دیا گیا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 26, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Ahmad Baloch Kathak dance

بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا

by ظریف رند
جنوری 6, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In