ذہنی مریض معاشرہ اور 3 عورتوں کی 3 کہانیاں۔۔!

ذہنی مریض معاشرہ اور 3 عورتوں کی 3 کہانیاں۔۔!
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

یہ ایک شعر ہمارے موجودہ معاشرے کی عکاسی کررہا ہے۔ بد قسمتی سے ہم نے خود ہماری جنت کو جہنم بنا رکھا ہے۔ انسانوں کی بستی میں جانوروں کا راج ہے۔ اور یہ جانور انسانوں پر ایسے حاوی ہو گئے ہیں کہ چراغ لیکر بھی انسان ڈھنڈو تو ملنا مشکل ہے اور اگر کوئی غلطی سے انساں مل بھی جائے تو یہ معاشرہ اس کے اندر کا جانور بھی جگا کر دم لیتا ہے۔

ہم اتنے بڑے نہیں ہیں جتنا ہم نے خود کو بڑا بنا رکھا ہے، بس اپنی اپنی سوچ اور نظریے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط گردانے کی ضرورت ہے۔ اگر کچھ غلط بھی ہو رہا ہے تو اس غلطی کی وجوہات کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے گھر کو اپنے چراغ سے جلایا نہیں روشن کیا جائے۔

کیونکہ ایک عورت ایک معاشرے کو جنم دیتی ہے، کئی نسلیں سنوارتی ہے اور اس کے بگاڑ میں بھی اس بہت اہم کردار ہوتا ہے لہذا سب سے پہلے ہم ہمارے معاشرے کے سب سے اہم اور بنیادی رکن کے کردار پر بات کرتے ہیں۔ گزشتہ کچھ مہینوں میں چند ایسے واقعات پیش آئے جس میں اہم کردار عورتوں کا رہا لیکن اپنی اپنی نوعیت کے ان واقعات نے کئی سوال پیدا کیے، کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں ان کے جواب مل سکیں۔

کچھ ماہ پہلے کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی گولڈن ٹاؤن میں گھر کے باہر سے دعا زہرا غائب ہوگئی تھی، جس پر مبینہ طور پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ دعا کو اغوا نہیں کیا گیا ہے بلکہ وہ اپنی مرضی سے گئی ہے ۔ پولیس کی تفتیشی رپورٹ اور بچی کے اہلخانہ کے بیانات میں تضادات سامنے آئے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق لاپتہ بچی کے والد نے بتایا کہ دعا ساتویں جماعت کی طالبہ ہے جبکہ سکول انتظامیہ کے مطابق بچی تیسری جماعت تک سکول آتی تھی، تیسری جماعت تک بچی کے سکول آنے کی تصدیق کلاس فیلوز نے بھی کی۔

تحقیقات میں اگرچہ بہت سے حقائق سامنے آئے اور پھر چند روز بعد دعا زہرہ کو لاہور سے ٹریس کر لیا گیاہے جسے پولیس نے اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیاہے۔ بعد ازاں دعا زہرہ نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اپنی پسند سے ظہیراحمد سےشادی کی ، اس نے کہا کہ میرےگھروالے زبردستی میری شادی کسی اورسےکرواناچاہتےتھے ، گھروالےمجھےمارتےپیٹتےتھے،کسی نےمجھے اغوانہیں کیا۔

دعا زہرا نے مزید کہا کہ اپنی مرضی سےگھرسےآئی ہوں کوئی قیمتی سامان ساتھ نہیں لائی، گھروالوں نےمیری عمرغلط بتائی ،میری عمر18سال ہے، خدارا! مجھےتنگ نہ کیاجائے، شوہرکےساتھ بہت خوش ہوں۔

دیکھا جائے تو بچی بالغ تھی تو اسے پورا اختیار ہے کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ کر سکے۔ لیکن ہاں طریقہ کار ضرور غلط تھا اور ایسا کیوں تھا اس پر کسی نے نہیں سوچا سوائے اپنے اپنے تجزیوں سے بچی کی کردار کشی کرنے کے۔ یہی اگر کوئی زنا کرتا تو چپ سادھ لی جاتی اور خاموشی سے اس عمل کو فروغ دینے کیلئے سب بغیرت بن کر اسلام کے علمبردار بن رہے ہوتے۔ جس معاشرے میں زنا عام اور ذیادتی سرعام ہوتی ہو وہاں ایسے عمل پر تنقید بنتی ہے۔ لیکن ایسے واقعات کو کیسے روکنا ہے کوئی نہیں سوچتا۔

دوسری جانب اس واقعے کے گزرنے کے چند دنوں بعد ایک اور افسوس ناک بلکہ اندوہناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک اعلیٰ تعلیمی یافتہ گھرانے سے تعلق رکھنے والی 30 سالہ بلوچ خاتون نے کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملہ کیا۔

کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے خاتون کی تصویر جاری کی اور اس کی شناخت شاری بلوچ عرف برمش سے کی۔ حملے سے پہلے ایک اور تصویر میں شاری بلوچ اپنے کم عمر بچوں کے ہمراہ بیٹھی ہوئی نظر آرہی تھی۔

ٹویٹر پر شاری بلوچ نے اپنے پروفائل میں اپنی تعلیمی قابلیت ایم فل ان ایجوکیشن اور زولوجی میں ماسٹرز بتایا ہوا تھا۔ شاری بلوچ کے خاندان کو جاننے والے ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شاری بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مالی طور پر خوشحال خاندان سے تھا۔

ان کے خاندان کے کئی افراد اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہیں یا رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شاری دو کم عمر بچوں کی ماں تھی جن میں ایک بیٹی اور بیٹا شامل ہے۔ان کے شوہر دانتوں کے ڈاکٹر جبکہ والد سرکاری ادارے میں ڈائریکٹر رہے ہیں۔ ان کے چچا ریٹائرڈ پروفیسر اور بلوچی ادیب ہیں جنہوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں۔

30 سالہ شاری بلوچ تربت کے ایک سرکاری سکول میں سائنس ٹیچر کے طور پر پڑھاتی بھی رہی تھی، وہ کچھ مہینوں پہلے کراچی منتقل ہوئی تھی۔ انہوں نے 2014ء میں بی ایڈ، 2018ء میں ایم ایڈ اور پھر زوالوجی میں ماسٹر کیا اور اس کے بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی تربت سے ایم فل کیا۔

اب خود سوچیں ایسی کیا مجبوری تھی؟؟؟ کیا سوچ کر اس نے اتنا بڑا قدم اٹھایا؟؟؟؟ ایک بہتر ازدواجی زندگی گزارنے کے باوجود، اپنے باغ کے دو معصوم پھولوں کی ساری زندگی کی خوشیاں اپنے ہاتھوں سے کیسے مسل کے جاسکتی؟؟؟؟ کوئی ماں ایسا قدم کیسے اٹھا سکتی؟؟؟ ایسا کیا کہا گیا اسے جس پر وہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوگئی؟؟؟؟ ایک باشعور اور پڑھی لکھی بیٹی، بیوی اور ماں کیا سوچ کر ایسی ذلت بھری موت کو گلے لگا گئی؟؟؟؟

یہ ایک الگ نقطہ نظر اور سوچ کی خاتون تھی جو شاید اپنے ساتھ ساتھ ان سب سوالوں کے جواب بھی اپنے ساتھ لے گئی۔ لیکن تھی تو عورت ہی نا تنقید کا نشانہ بنی اور اس کا اثر اس کی آنے والی نسلوں پر تاحیات رہے گا۔

اور پھر آتی ہیں 18 سالہ سیدہ دانیہ شاہ جیسی لڑکیاں جو تعلیم کے زیور سے تو آراستہ نہیں ہوتیں لیکن ہاں معاشرے کی تلخیوں سے مکر و فریب میں پی ایچ ڈی ضرور کرلیتی ہیں۔ میرا کوئی ان سے ذاتی اختلاف نہیں بس ان کیلئے تو یہی کہنا کافی کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔

سیدہ دانیہ شاہ جس کا تعلق مبینہ طور پر جنوبی پنجاب کے علاقہ لودھراں کے نجیب الطرفین سادات گھرانے سے ہے، مبینہ لفظ کا استعمال اس لیے کیا کہ کچھ ذرائع کے مطابق ان کا تعلق کسی سید گھرانے سے نہیں۔

خیر ممبر قومی اسمبلی عامر لیاقت جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف کے منحرف اراکین میں ہوتا ہے بظاہر اپنی بیگمات کے معاملے میں بھی یہ ہر بار منحرف ہی پائے گئے ہیں۔ دنیا انہیں عالم دین کے نام سے جانتی تھی اور اب عالم بیگمات سے جانتی ہے۔ دانیا شاہ/ دانیا ملک جو بھی ہیں ان کی تیسری بیوی تھیں، جنہوں نے شادی کے 4 ماہ بعد اپنی ازدواجی زندگی کا ننگا ناچ پوری دنیا کو دکھا کر ہمدردی لینے کی کوشش اور قانونی چارہ جوئی سے اپنے منحرف خاوند سے خلع کا مطالبہ کر رکھا ہے۔

اب کوئی ان سے بھی پوچھ لے کہ کیا ملا اپنی ہی عزت کا جنازہ نکال کر؟؟؟ سستی شہرت کی خاطر اپنی ہی کردار کشی کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟؟؟ دولت اور شہرت تو ویسے بھی شادی کرکے مل ہی گئی تھی، اور بھئی اگر خلع لینی ہی تھی تو چپ چاپ بھی لے سکتی تھی یہ سب تماشا لگا کر اپنی مشہوری کرکے کون سی تسکین حاصل کرلی آپ نے؟؟؟ آپ کو اندازہ ہی نہیں آپ کے اس امر سے آپ کی عمر کی کتنی لڑکیاں خاص کر ایک خاص طبقے سے منسلک لڑکیاں معاشرے کی گندگی گالیوں کی نظر ہوئی ہونگی۔

یہ تو تھیں وہ خواتین جو خبر بننے کے بعد خبروں کی زینت اور معاشرے کی ذلت بنیں۔ لیکن ان کا کیا جو قوم کی بیٹیاں بنتے بنتے قوم کو ہی ہتھیار بنا کر اپنی عزتوں کے جنازے خود نکالتی ہیں۔ اقتدار کے نشے میں اتنی محو ہو جاتی ہیں کہ صحیح غلط کی تفریق بھی بھول جاتی ہیں، بس پھر میں اور میری کا راگ بجاتے دیکھائی دیتی ہیں۔ لیکن پتا نہیں کیوں بھول جاتے ہیں سب کہ یہ مکافات عمل ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے اور جو بیج بوتے ہیں وہی کاٹنا پڑتا ہے۔

خدارا اس ذہنی اضطراب سے نکلیں، انسان کو انسان جانیے، عورت، ماں ، بہن بیٹی، بہو، بیوی جس بھی روپ میں ہو اس کی عزت کریں۔ غلط کو غلط کہیں اور اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں۔ عہدہ، رتبہ یا اقتدار یہ سب آنے جانے والی چیزیں ہیں لیکن عزت و وقار ایک بار داغدار ہوجائے تو
ساری عمر کے لیے اپنے نشان چھوڑ جاتا ہے۔

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

مصنفہ سینیئر صحافی ہیں اور ملک کے متعدد ٹی وی چینلز پر کام کر چکی ہیں۔ انٹرنیٹ پر ان کے مختلف ویب سائٹس پر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔