پاکستان کے ممکنہ ڈیفالٹ سے عالمی دنیا کو پریشان ہونا چاہئیے

پاکستان کے ممکنہ ڈیفالٹ سے عالمی دنیا کو پریشان ہونا چاہئیے
یوکرائن جنگ نے صرف یورپ میں ہی معاشی مسائل پیدا نہیں کیے بلکہ پاکستان میں بھی جہاں کی معاشی صورتحال پہلے ہی کرپشن، بدانتظامی اور غیر مستحکم گوورننس کی وجہ سے متاثر ہے۔ خاص کر تیل کی قیمتوں میں اضافے نے اسلام آباد کو شدید متاثر کیا اور اس کے برآمداتی اخراجات 85 فیصد سے بھی بڑھا کر تقریبا 5 بلین ڈالر تک پہنچا دئیے۔

جون 30 کو مالیاتی سال کے اختتام پر ملکی تجاری خسارہ 50 بلین ڈالر تک پہنچ گیا جو کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں 57 فیصد زیادہ ہے۔

دوسری جانب مہنگائی 20 فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے جس سے متوسط طبقہ تک سخت متاثر ہے۔ یہی حالات غذائی سیکورٹی کے حوالے سے ہیں، جبکہ آبادی کا مسئلہ اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنارہا ہے۔

پاکستانی روپیہ کی گراوٹ کا سلسلہ بھی جاری ہے اور گزشتہ مالی سال یہ ڈالر کے مقابلے میں تیس فیصد سے زائد گراوٹ کا شکار ہوا جبکہ اس دوران میں بھارتی روپیہ نے فقط چھ فیصد سے کچھ زائد تنذلی دیکھی۔

پاکستان کے موجودہ معاشی حالات ایک خاص پہلو رکھتے ہیں اور وہ یہ کہ اسے عالمی مالیاتی ادارے سے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت زیادہ 'بیل آوٹ' دیے گئے۔

سٹی بینک کے سابق چیف اسٹریٹجسٹ یوسف نظر کے مطابق اس امر سے شریفوں، بھٹوؤں اور خانوں کی جانب سے سنجیدہ اصلاحات کے حوالے سے عدم دلچسپی نظر آتی ہے۔

لیکن آئی ایم ایف کو پاکستان پر اعتماد نہیں رہا اور ادارہ اصلاحات کے حوالے سے پاکستانی وعدوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کو آنے والے دنوں میں میکرو اکنامک عدم استحکام کا سامنا ہوسکتا ہے جس کے بعد سماجی عدم استحام بھی کچھ زیادہ دور نہیں ہوگا۔

دوسری جانب ملکی پرائیوٹ سیکٹر اتنی نوکریاں پیدا نہیں کررہا جتنی پیدا کرنی چاہئیں اور یوں عدم اطمینان اور جرائم میں اضافہ بھی دیکھا جارہا ہے۔

اگر سری لنکا میں معیشت کا انہدام خطے کے لیے پریشان کن تھا تو پاکستان میں معیشت کا ممکنہ انہدام پوری دنیا کے لیے پریشان کن ہونا چاہئیے۔ کئی دہائیوں سے پاکستان میں ریاست کی ناکامی ایک برے خواب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی اک شکل تشدد، انتہاپسندی اورغربت میں اضافہ ہے۔

یہ حالات کراچی میں واضح طور پر سامنے آئے ہیں اور معیشت کی حالت بدلے بغیر اس صورتحال میں سدھار مشکل نظرآتا ہے۔ یاد رہے کہ معاشی اور سماجی استحکام باہم مربوط ہیں اور ایک کی بہتری یا گراوٹ دوسرے کی بہتری یا گراوٹ کا سبب بنتی ہے۔ پاکستان کا معاشی مرکز کراچی ایک بار پھر خراب حالات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

پاکستای الیٹ اک 'اسٹیٹ آف ڈینائل' میں رہتے ہیں اوران کا خیال ہے کہ موجودہ 'اسٹیٹس کو' برقرار رہے گا اور انکی پرتعیش زندگیاں وسیع تر معاشرے اور اس کے مسائل سے الگ تھلگ رہیں گی، لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ 'بلبلہ' بالآخر تحلیل ہوجائے گا اور اس کے نتائج کچھ زیادہ اچھے نہیں ہوں گے۔

کیا ہم اپنے 'اسٹیٹ آف ڈینائل' سے باہر آتے ہوئے موجودہ صورتحال میں سدھار اور بہتری کے لیے تیار ہیں؟

مائیکل روبن کا یہ مضمون نیشنل انٹرسٹ میں انگریزی زبان میں شائع کیا گیا جسے نیا دور کے قارئین کیلئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔