شہباز شریف صاحب، ترجمانوں سے ہوشیار!

شہباز شریف صاحب، ترجمانوں سے ہوشیار!
سمجھ سے باہر ہے کہ کچھ صحافی اور تجزیہ کار حالیہ ضمنی انتخابات میں عمران خان اور پاکستان تحریکِ انصاف کی تاریخی فتح کو کمتر ثابت کرنے پر کیوں تلے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے عمران خان کو کم مارجن سے فتح ملی۔ کسی کا استدلال ہے کہ عمران خان کو اپنی جماعت کے دیگر امیدواران پر اعتماد نہیں، اور جنرل الیکشن میں سبھی نشستوں پر خود نہیں کھڑے ہو سکتے۔ کچھ کو ضمنی الیکشن میں کم ووٹر ٹرن آؤٹ کا ملال ہے اور جن کو اپنے ہی ان تمام دلائل کے بودے پن کا ادراک ہے، وہ اپنے دل کو خوش کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں کہ عمران خان بیوقوف بن گیا، 6 نشستیں پھر سے خالی کرے گا اور 2 تو پہلے ہی کم ہو چکیں۔ کسی کو اس میں بھی شہباز شریف کی کامیابی نظر آ رہی ہے۔ غرضیکہ سبھی کچھ پی ڈی ایم کے حق میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔

حقیقت لیکن ان ڈرائنگ روم تجزیات سے بہت مختلف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے 7 میں سے 6 نشستیں جیت کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ ملک کے تین صوبوں میں یکساں مقبول ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ حلقے کی سیاست میں بھی پاکستان کے کسی بھی مقامی جغادری کو شکست دے سکتے ہیں۔ وہ چاہے دہائیوں سے مقامی سیاست کی سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والا اے این پی کا بلور خاندان ہو، پختون قوم پرستی کے سب سے بڑے داعی اور اس کے بانی کی حیثیت رکھنے والے باچا خان کا پوتا اور ان کی سیاسی وراثت کا جانشین ایمل ولی خان ہو، حال ہی میں خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن جیتنے والی جماعت جے یو آئی کا امیدوار ہو، نواز شریف کا رشتہ دار عابد شیر علی ہو، ننکانے کا طاقتور ترین رائے منصب خاندان ہو یا پھر کبھی مہاجر سیاست کا گڑھ سمجھا جانے والا کراچی کا کورنگی کا علاقہ ہو، عمران خان نے مخالفین کو ہر جگہ چاروں شانے چت کیا ہے۔

جو لوگ عمران خان کو اپنے امیدواران پر اعتماد نہ ہونے کے غم میں گھلے جا رہے ہیں، انہیں پنجاب اسمبلی کے ان دو حلقوں کی طرف دیکھنا چاہئیے جہاں مسلم لیگ (ن) کے 2018 میں جیتنے والے امیدوار ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کھڑے ہو کر الیکشن جیت گئے۔ انہیں یہ بھی دیکھنا چاہئیے کہ جس حلقے میں (ن) لیگ جیتی وہاں بھی انہیں امیدوار نہیں مل رہا تھا اور بھنگو صاحب کا الیکشن جیت جانا بہت سے لوگوں کو معجزہ ہی نظر آ رہا ہے مگر یہ معجزہ نہیں ہے۔ دراصل جس طرح انہوں نے الیکشن جیتا، وہی جیتنے کا ایک واحد طریقہ ہے۔ اس پر بھی آتے ہیں لیکن ذرا ان مفت کے وکیلوں کو یہ یاد کروا دیجیے کہ جب 17 جولائی کے ضمنی الیکشن میں (ن) لیگ 20 میں سے 18 سیٹیں جیتتی جیتتی بالآخر نتیجے کے وقت 4 سیٹیں ہی جیت پائی تھی، تو آپ نے اعلان کیا تھا کہ (ن) لیگ کی شکست کی وجہ پارٹی ٹکٹ نہیں بلکہ یہ مجبوری تھی کہ پارٹی پی ٹی آئی سے لوٹے ہو کر آنے والے ارکان سے ٹکٹ کا وعدہ کر بیٹھی تھی۔

اب معاملہ الٹا ہے کہ وہ لوگ جو (ن) لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں گئے، وہ پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر جیت گئے۔ یعنی عمران خان کا بیانیہ بھی کامیاب ہے، اس کی حکمتِ عملی بھی اور دوسری جانب یہ بڑی سیاسی جماعتیں ہیں جن کی دہائیوں کی کثرت اور تجربہ اس جماعت کے 'جنون' کے آگے حیف نظر آتے ہیں۔

یہاں لیکن جو تین سیٹیں پی ڈی ایم کو ملی ہیں، ان پر غور کیجیے۔ کراچی سے عبدالحکیم بلوچ ہوں، ملتان کے علی موسیٰ گیلانی یا پھر شرقپور کے حاجی افتخار احمد بھنگو، ان تینوں میں آپ کو ایک قدرِ مشترک نظر آئے گی۔ آپ پچھلے دو ہفتوں میں ملتان سے سڑکوں پر عوامی ردِ عمل جانتے کسی اینکر کا کوئی شو اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ لوگ آپ کو یہی کہتے نظر آئیں گے کہ موسیٰ حلقے میں رہا ہے، وہ ہم سے گلے ملتا ہے، وہ ہمارا دکھ سکھ سنتا ہے، ہم سے ہاتھ ملاتا ہے، کسی کو مدد کی ضرورت ہو تو اپنی بساط کے مطابق وہ بھی کر دیتا ہے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ علی موسیٰ گیلانی نے الیکشن ناصرف جیتا بلکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ایک نئی امید دے ڈالی۔

عبدالحکیم بلوچ دہائیوں سے اپنی انہی خوبیوں کی وجہ سے الیکشن جیتتے آئے ہیں۔ کبھی پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر تو کبھی (ن) لیگ کی ٹکٹ پر اور کبھی آزاد حیثیت میں۔

افتخار بھنگو تو سب کے لئے سرپرائز ثابت ہوئے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو 1988 میں آخری مرتبہ پارلیمان کا رکن منتخب ہوا ہو، جسے الیکشن لڑے 20 سال گزر چکے ہوں، وہ اس دور میں (ن) لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن جیت جائے کہ جب (ن) لیگ کے جیتے ہوئے ارکان اپنے حلقوں میں جاتے ڈرتے ہیں، یہ معجزہ نہیں تو کیا ہے؟

افتخار بھنگو کے قریبی لوگوں سے پوچھیں تو ان کے پاس ایک ہی جواب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے علاقے میں کوئی ایک گھر نہیں چھوڑا جس کا دروازہ نہ کھٹکھٹایا ہو۔ ہر گھر کا دروازہ بجایا، ووٹ مانگا۔ کسی نے برا کہا، کسی نے بھلا۔ لوگوں نے اپنے دکھڑے روئے، غصہ نکالا، سوال کیے، جواب مانگے، ہم نے دیے۔ ہم نے ان کی باتیں سنیں۔ ان سے معافیاں مانگیں۔ کسی کی تکلیف سنی تو کسی کو اپنی بپتا سنائی۔ غصہ ٹھنڈا ہوا تو لوگ ووٹ دینے پر بھی آمادہ ہو گئے۔

یہ فارمولہ افسوس کہ یہاں بڑے بڑے جغادری بھولے بیٹھے ہیں۔ 2008 سے 2018 تک (ن) لیگ نے پنجاب میں ایسا غلبہ دیکھا ہے کہ انہیں ووٹر کی سننے کی عادت نہیں رہی تھی۔ ان میں ووٹر کا غصہ برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رہا تھا۔ وہ بھول بیٹھی تھی کہ الیکشن لڑا کیسے جاتا ہے۔ اب اتنے سال بعد کر کے کھانی پڑ رہی ہے تو انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کریں تو کریں کیا۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ وزیر اعظم نے پارٹی ارکان کو کہا کہ حلقوں میں جائیں تو آگے سے وزیر اعظم کو کھری کھری سنا دی گئیں۔

بجا کہ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ مگر عام آدمی کا کوئی پرسانِ حال بھی نہ ہو تو وہ اپنا غصہ یا تو مخالفت میں ووٹ دے کر نکالے گا یا پھر گھر بیٹھ کر۔

پی ڈی ایم کے ان خود ساختہ ترجمانوں کی طرف سے بھی لیکن اپنے کرم فرماؤں کو کوئی ڈھنگ کا مشورہ نہیں دیا جا رہا۔ انگریزی زبان کا لفظ ہے denial یعنی مسلسل ایک 'میں نا مانوں' کی کیفیت۔ یہ بہی خواہ اپنی جماعت کو بتا رہے ہیں کہ ووٹر ٹرن آؤٹ کم تھا، عمران نے جھوٹ بہت بولا، آپ نے تو ابھی جلسہ ہی کوئی نہیں کیا، آپ کی طرف سے تو بغیر مہم کے اتنا ووٹ مل گیا، وہ جی یہ تو عمران خان تھا، کوئی سادہ امیدوار ہوتا تو آپ تو چیر پھاڑ کے کھا جاتے۔

گذارش ہے کہ ابھی PDM کے اپنے حلقے تو کھلے ہی نہیں۔ وہاں بھی بہت کم مارجن سے جیتی ہوئی نشستیں ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ جس پارٹی نے 2000 کی لیڈ کو 8000 کی لیڈ میں تبدیل کر دیا ہے، وہ جب آپ کی سیٹیں الٹنا شروع کرے گی تو آپ کے پلے بچے گا کیا؟ سوشل میڈیا کو بھول جائیے، وہ آپ کے بس کا روگ نہیں۔ یہ نوجوانوں کا کام ہے۔ سترے بہتروں کا نہیں۔ جو کام آتا ہے، وہ کیجیے۔ عوام میں جائیے اور ووٹ مانگیے۔ کچھ ملے گا تو ان غریبوں کے دروازے کھٹکھٹانے سے ہی ملے گا۔ اصلی سیاست کیجیے، اسی میں بچت کا امکان ہے اور ہاں، ترجمانوں سے ہوشیار!

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.