چولستان کے صحرا میں بھوک اور پیاس کی پُکار

چولستان کے صحرا میں بھوک اور پیاس کی پُکار
سورج سوا نیزے سے بھی نیچے آ چکا بھوک پہلے ہی زندگی کو چاٹ رہی ہے اور پیاس کی شدت نے لوگوں کے حلقوم خشک کر دیئے ہیں۔ صحرا کے باسیوں کی نظریں آسمان کی طرف ہیں ۔

اللہ میگھ دے
چھایا دے… پانی دے
راما میگھ دے…مولا میگھ دے

ایک بوڑھی عورت اپنی آنکھوں پر اپنی ہتھیلی کی چھائوں کیے ہوئے گردآلود راستوں کی جانب دیکھ رہی ہے کہ شاید کوئی امید بھر آئے۔اچانک اس کے نحیف چہرے پر خوشی لہرائی اور وہ چلائی ’’وہ آ گئے‘‘اس کی آواز کو دوسروں نے بھی سنا اور ان راستوں کی طرف دیکھنے لگے جدھر وہ دیکھ رہی تھی۔ تین ٹرک خراماں خراما ںچلے آ رہے تھے اور اس متلاشی ہجوم کے پاس آ کر رُک گئے۔یہ خوراک اور پانی کے وافر ذرائع سے لدھے ہوئے المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے ٹرک تھے ۔ رضاکاروں نے اپنی اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں ،لوگ قطار در قطار بیٹھ گئے ان کے آگے خوراک کے بڑے بڑے پیکٹ رکھ دیئے گئے۔ پانی سے ان کے کین اور مٹکے بھرے گئے ۔جانوروں کے خشک ٹوبوں کی طرف رُخ کیا گیا اور انہیں بھی پانی سے بھر دیا گیا۔ جانور بھی خوشی سے نہال ہو گئے۔ المصفطیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے آرگنائزر فوٹوجرنلسٹ طارق حسن بھٹی نے اپنا کیمرہ کندھے سے اتارا اور بھوکے پیاسے لوگوں کو عکس بند کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ مخیر حضرات اور ریاست کو ان کی حالتِ زار کی تصویر دکھا سکے۔



وطن عزیز میں تین بڑے صحرا تھر ،تھل اور چولستان ہیں۔ چولستان بہاولپور کے جنوب میں 66لاکھ 55ہزار ایکڑ پر مشتمل دنیا کا ساتواں بڑا صحرا ہے جس کا طول 480کلومیٹر اور عرض 32کلومیٹر سے 192 کلومیٹر ہے۔مقامی لوگ اس کو ’’روہی ‘‘کہتے ہیں جبکہ تاریخ دانوں کے مطابق یہ ترکی زبان کے لفظ ’’چول ‘‘سے ماخوذ ہے جس کے معنی ’’ریت ‘‘ کے ہیں ،ماضی کی معروف روحانی ہستی خواجہ فرید کا یہ سولہ برس تک مسکن رہا اور ان کی کافیوں میں روہی کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔

خواجہ غلام فریدؒ نے کہا تھا:
وچ روہی دے راہندیاں
ایہہ نازک نازک جٹیاں
راتیں، کرن، شِکار دِلا دے
دِنیں بَلوون، مَٹیّاں!!
اور مائی بھاگی نے پکارا تھا :
کھڑی نیم کے نیچے توہیکلی
جاتوڑاوٹارلو، مناں چھنی ستی دیکھ لے
(میں نیم درخت کے نیچے اکیلی کھڑی ہوں راہگیروں میری اداس،پریشانی کا حال ذرا میرے محبوب تک پہنچا دو)

بدقسمتی سے چولستان میں گل گھوٹو کی ویکسین اکثر نایاب ہوتی ہے ،تین معصوم بچیاں پانی کی تلاش میں بھاگتے بھاگتے زندگی کی بازی ہار گئیں۔
90فیصد ٹوبے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں جس کا خمیازہ انسانوں اور جانوروں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

وطن عزیز کا یہ بڑا ریگزار ازل سے بے آب و گیاہ نہ تھا ،یہ خطہ ایک عظیم تہذیب کا حامل تھا اور ماضی بعید میں یہاں سے دریائے ہاکڑہ گزرتا تھا جسے پڑوسی ملک بھارت میں گھاگھرا کہا جاتاہے۔ استبداد زمانہ ہے کہ وہ تہذیب اب آچاروں کی شکل میں اس خطہ میں جا بجا بکھری ہوئی ملتی ہے۔تاریخ کے بے رحم تھپیڑوں میں دریائے ہاکڑہ کی تہذیب مٹتی چلی گئی۔ قلعہ ڈراور کو دیکھ کر تاریخ کے سینے پر گھوڑوں کے ٹاپوں کے نشانات خیالوں کے کینوس پر اْبھرتے ہیں۔ فصیل پر کھڑا جب کوئی سیاح شرقی کنارے پر نظر دوڑاتا ہے تو ایک لکیر کی شکل میں درہائے ہاکڑہ کے آثار نظر آتے ہیں۔چالیس قلعوں کے کھنڈرات آج بھی اس دریا کے کنارے موجود ہیں حوادث زمانہ کہیئے یا چولستانیوں کی بد قسمتی کہ دریا کی گزرگاہ یہ لق و دق صحراجو اپنے دور میں جنت ارضی تھا اب پانی کی بوند بوند کیلئے ترستا ہے یہ صحر ااب خشک سالی کا مستقل مسکن ہے پیاس تو جیسے اس صحرا کا مسکن ہوکر رہ گئی ہے۔پانی کو ترستی زندگی کے ہونٹ تر کرنے کیلئے اس صحرا میں 1100ٹوبے ہیں جو بارش کے بعد پانی ذخیرہ کرنے کا واحد اور اہم ذریعہ ہیں ،چراگاہوں ،جنگلی حیات اور سب سے بڑھ کر لائیو سٹاک کی دولت سے یہ وسیع و عریض خطہ مالا مال ہے گو یہ صحرا بے پناہ وسائل رکھتا ہے مگر ماضی کی حکمرانیوں نے عدم توجہی کو شیوہ بنائے رکھا اور یہ صحرا زندگی کو ترستا رہا ،نباتات اور جڑی بوٹیا ں جو صحت کیلئے تیار کی جانے والی ادویات کیلئے لازم و ملزوم کا درجہ رکھتی ہیں اس صحرااعظم کے سینے پر اپنے وجود کا احساس دلاتی ہیں اس لق و دق صحرا میں دو لاکھ انسان بستے ہیں جن کی گزر اوقات کا واحد ذریعہ لائیو سٹاک ہے۔



چولستان میں پائے جانے والے 112اقسام کے پرندوں ،118اقسام کے رینگنے والے جانوروں ،13لاکھ مویشیوں ،جن میں 6لاکھ گائیں ،ساڑھے تین لاکھ بھیڑیں ،سوادولاکھ بکریاں ،1,50000 اونٹ موجود ہیں چولستانی گائے دنیا کی بہترین نسل میں سے ایک ہے جس کے آبائو اجداد کا تعلق ساہیوال نسل کی گائے سے بتایا جاتا ہے کہا جاتا ہے جب ہاکڑہ دریا کا عروج تھا تو یہ گائے 13کلو ایک وقت میں دودھ دیتی تھی مگر اب یہ محض تین لیٹر پر ہے۔ اس کی بڑی وجہ آبی علاقہ جات کی گائے کی طرح اس پر توجہ نہ ہونا ہے اور اس طرح دودھ کی یومیہ پیداوا ر 4,22000لیٹرز ہے یہی صحرا اعلیٰ نسل کی بھیڑوں کا بھی مسکن ہے جن کی مجموعی تعداد 3,52000ہے ان بھیڑوں کی نسل میں سپلی ،بْچی اور کھڈالی نسل کی بھیڑیںقابل ذکر ہیں۔ان بھیڑوں سے سالانہ 12000ٹن اون پیدا ہوتا ہے ان کا گوشت نہ صرف اعلیٰ قسم کا ہوتا ہے بلکہ ان کی اون سے انتہائی قیمتی قالین اور پارچہ جات تکمیل پاتے ہیں بہترین نسل کی چولستانی اور بیتل بکریاں اس صحرا کا حسن ہیں جو بہترین اون اور کھالوں کے علاوہ دنیا کا لذیذ ترین گوشت فراہم کرتی ہیں کہا جاتا ہے کہ ان کا گوشت کم چکنائی اور زیادہ لحمیاتی غذا کے طور پر ایک بہترین سوغات ہے ان بکریوں کی تعداد 2,53000ہے چولستان کے صحرا میں پائے جانے والے ریگستانی جہاز اونٹ کی تعداد 1,50000ہے یہ دو نسلوں میں پایا جاتا ہے جس میں ایک نسل ’’مڑیچہ ‘‘ہے اور دوسری نسل ’’مریلہ ‘‘ہے لمبی اور باریک گردن ہونے کی بنا پر مڑیچہ اونٹ اپنا ثانی نہیں رکھتا عربی نسل کا یہ اونٹ عرب سیاح اور جنوبی پنجاب کے اونٹوں کے شائقین وڈیرے پسند کرتے ہیں میلوں اور تقریبات میں مڑیچہ اونٹ ہمیشہ نمایاں ہوتا ہے جو دوڑنے ،کشتی اور ناچ میں ایک مخصوص روایت کا حامل ہے ،دوسری نسل مریلہ دودھ اور گوشت کی پیداوار کیلئے معروف ہے اس کا گوشت مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک میں مانگ رکھتا ہے۔

عام حالات میں مریلہ مادہ اونٹ 10سے15لیٹر یومیہ دودھ دیتی ہے چولستان کا یہ واحد جانور ہے جو کئی کئی روز بغیر پانی پیئے گزار دیتا ہے پانی کی کمی بڑی وجہ 2سے3انچ سالانہ بارش ہے۔ چولستان کے ہر ذی روح اورلاکھوں کی انسانی آبادی اس پانی سے جڑی ہوئی ہے جو آسمانوں سے بارش کی صورت برستا ہے یہ پانی برس گیا تو چولستان میں موجود یہ ٹوبے پانی سے بھر جاتے ہیں اور خزاں رسیدہ چہروں پر زندگی کے آثار نمایاںہونے لگتے ہیں بصورت دیگر یہاں کے باسی جنہیں روہیلے کہا جاتا ہے خشک سالی کے دنوں میں ایک ٹوبے کا رخ کرتے ہیں وہاں پانی نہ ہو تو پھر دوسرے ٹوبے کی جانب عازم سفر ہوتے ہیں اس بڑے صحرائی خطہ میں گرمیوں میں درجہ حرارت 50درجہ ڈگری سنٹی گریڈ تک تجاوز کر جاتا ہے اور سردیوں میں 6ڈگری سنٹی گریڈ تک گر جاتا ہے خشک سالی کی بنا پر اور پانی نہ ہونے سے اس صحرا میں جانوروں کے ڈھانچے ہمیں جابجا نظر آتے ہیںموسم گرما کی قیامت خیز گرمی کی شدت میں جانوروں کی زبانیں حلق سے باہر آجاتی ہیں روہیلے اپنے لئے اور جانوروں کیلئے پانی کی تلاش میں سرگرداں اکثر اوقات اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ 1100ٹوبے جو کثیرپانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان میں تو خشک سالی میں بھی پانی ہونا چاہیئے لیکن ایسا کیوں ہے کہ ان میں پانی نہیں ہوتا اور خشک سالی یہاں کے باسیوں کا مقدر ہو کر رہ جاتی ہے ؟اس سوال پر بہاولپور کے معروف سماجی ورکر اور تجزیہ نگار اصغر علی کا موقف بڑا واضح تھا کہ ’’ان ٹوبوں کو کنٹرول کرنے والی اتھارٹیز بھی چولستان کے باسیوں کی مشکلات کی ذمہ دار ہیں کیونکہ ان ٹوبوں میں جہاں پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے سالہا سال سے صفائی میں غفلت برتی جارہی ہے مٹی اور ریت کی مقدار ہرسال بڑھتی جارہی ہے اور ٹوبوں میں پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد ختم ہوتی جارہی ہے ان ٹوبوں کی صفائی کی ذمہ دار پہلے نمبر پر چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی ،دوسرے نمبر پر چولستان فاریسٹ رینج اور تیسرے نمبر پر پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورسز ہیں ‘‘یہ حقیقت ہے کہ ہر تین سال بعد ان ٹوبوں کی صفائی ہونا ضروری ہے ۔

چولستان کے ایک باسی اللہ ڈتہ نے بتایا کہ ’’سائیں اس وقت 90فیصد ٹوبے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں جس کا خمیازہ چولستان کے باسی انسانوں ،جانوروں اور پرندوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے ‘‘۔

فاروق ملک جو ایک تعلیمی ادارہ چلاتے ہیں اور چولستان کے حالات پر نظر رکھتے ہیں کا کہنا تھا کہ سابق دور حکومت میں چولستان میں پانی کی ترسیل کی خاطر چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے توسط سے 45کروڑ روپے کی کثیر لاگت سے 256کلومیٹر پائپ لائن بچھائی اسی طرح ڈیرواور میں 13کروڑ کی لاگت سے 87کلومیٹر کی پائپ لائن بچھائی گئی ہر 10کلومیٹر پر ایک ایسا واٹر پوائنٹ بنایا گیا جو جانوروں اور انسانوں کے لئے آسان ذریعہ آب توبنا لیکن یہاں کے رہنے والے تاحال پانی کی کمی سے متاثر نظر آتے ہیں ‘‘



گرمی کی شدت سے ہانپتے ہوئے مویشی پانی کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں تو پیاس کی بنا پر کڑوے پانی کی زیادہ مقدار پینے سے اکثر اوقات ان کی موت واقع ہوجاتی ہے اس ضمن میں چولستان کے ایک متاثرہ اللہ بچایا ڈینو جس کی آنکھوں کے سوتے خشک ہوچکے ہیں ایک آپ بیتی بیان کرتے ہوئے کہا ’’ مریض جانور کانپتے کانپتے مر جاتا اور ذبح کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا آخر ہم نے چھری قریب رکھی اور 16جانوروں کے مرنے کے بعد سترویں جانور کو ہم نے ذبح کیا اور خون کو ٹسٹ کیلئے بھیجا پتہ چلا گل گھوٹو کی بیماری ہے دوائی لی اب باقی جانور ٹھیک ہیں جو چلے گئے وہ تو گئے جب جانور مر جاتا ہے تو اس کا مالک بھی مر جاتا ہے ‘‘

بدقسمتی سے چولستان میں گل گھوٹو کی ویکسیئن ’’ہیمورہیجک سپٹیسیمیا‘‘اکثر نایاب ہوتی ہے ماضی میں فورٹ عباس کے چولستانی صحرا میں تین معصوم بچیاں بھی پانی کی تلاش میں بھاگتے بھاگتے زندگی کی بازی ہار گئیں اور جب صحرا میں ہوا کا طوفان اْٹھا تو یہ معصوم لاشیں ریت سے اٹ گئیں۔یہ اندوہناک واقعہ بھی چولستان کی پیاس کی شدت پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ون آر مٹھڑا اور ون ایل مٹھڑا جو ایک مختصر علاقہ کو سیراب کرنے والی نہر جس کا پانی 87کیوسک ہے دو سال قبل اسے پختہ کرنے کے نام پر بند کیا گیا اور دوسال سے ٹیل والے چولستانی پانی کو ترس رہے ہیں۔ صحرا میں جابجا مرے ہوئے جانوروں کے ڈھانچے نظر آتے ہیں قلعہ ڈیراور اور اس کے گردو نواح کی آبادی کو گھر گھر پانی پہنچانے کیلئے ایک کروڑ روپے کی لاگت سے جو پائپ لائن بچھائی گئی وہ نہ صرف ناکارہ ہوچکی ہے بلکہ اس پر سائے کیلئے بنائے گئے شیڈ بھی ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں۔

دانشوروں کے مطابق 6655360ایکڑ پر مشتمل چولستان میں 150,000ملین آبادی کی خاطر 28کے قریب سکول بنائے گئے ہیں جو حکومت پنجاب کی جانب سے چلائے جارہے ہیں 23مارچ 2014ء کو پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کی جانب سے 75کمیونٹی سکول برائے چولستان اعلان کیا گیا جبکہ سابق وفاقی وزیر میاں بلیغ الرحمان نے کمیونٹی سکولز کا چولستان میں افتتاح بھی کیا جن کی تعداد دس بتائی گئی اس کے علاوہ موبائلز سکول سسٹم بھی متعارف کرایا گیا حکومت کی جانب سے پورے چولستان کی خاطر صرف ایک گرلز ہائی سکول ہے چولستان میں فروغ تعلیم کی خاطر حکومتی کوششیں اپنی جگہ مگر چولستانی کا بچہ مقامی سطح کے بجائے دور دراز علاقوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ حکومتی سطح پر بنائے گئے تعلیمی اداروں کی عمارت گھوسٹ سکولوں کا نقشہ پیش کر رہی ہیں۔ پرائمری سطح پر چولستانیوں کے بچے آج بھی کھلے آسمان تلے چلچلاتی دھوپ میں تعلیمی زیور سے آراستہ ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بہاولپور ضلع سے ملحقہ چولستان 4028217ایکڑ کی آبادی گزشتہ پانچ دہائیوں سے تعلیم سے محروم چلی آرہی ہے حالانکہ چولستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں چولستانی نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لئے لاہور اور اسلام آباد کے چکر لگا لگا کر تھک چکے ہیں اگر حکومت چولستان میں تعلیمی سہولتیں دینے پر توجہ دے اور تعلیمی اداروں کو فعال کر دے تو درس و تدریس کا نظام چلانے والوں کی چولستان میں ہی کمی نہیں کہ سابقہ حکومت صرف بیورو کریسی پر ہی انحصار کرتی رہی چا ہئے تو یہ تھا کہ مقامی لوگوں کی آراء� سے چولستان میں تعلیم کے فروغ کی خاطر اقدامات کرتی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ چولستان میں اب تک سکولوں کی عمارتوں پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے مگر وہ عمارات آج کھنڈر بن چکی ہے یا پھر بھانوں میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہیں جن کو واگزار کرانا ضروری ہے چولستانی اپنے آپ کو محرومیوں کا شکار سمجھ کر مایوسیوں میں گھر چکے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چولستان میں تعلیم پر 22کروڑ روپے سالانہ خرچ ہو رہے ہیں جو کہیں نظر نہیں آرہا۔



ایک عشرے سے زائد عرصہ ہونے کو ہے جب اس بڑے صحرا میں قلعہ دراوڑ کے پہلو میں جیپ ریلی میلہ سجتا ہے ریلی کے دنوں میں بھی چاہیئے تو یہ کہ چولستانی بھی اس تفریح سے لطف اندوز ہوں مگر ان کے دکھ تفریح کے ان دنوں میں بھی کم نہیں ہو پاتے قلعہ کے ارد گرد آباد چولستانی اپنے اہل خانہ کو خانہ بدوشوں جیسی زندگی پر مجبور کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ریلی کے موقع پر دو لاکھ افراد شریک ہوتے ہیں جب اتنی بڑی تعداد اس ریلی کو دیکھنے آتی ہے تو چند کچے پکے گھروں کے مکینوں کی گنجائش نکالنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی ان چولستان کے مکینوں سے گھر خالی کرا لئے جاتے ہیں ٹور ازم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے منعقدہ یہ ریلی ماہ فروری کے درمیان سے شروع ہوتی ہے مگر اس کے انتظامات بہت پہلے شروع کردیئے جاتے ہیں اتنے بڑے ایونٹ سے بھی چولستانیوں کی تقدیر نہیں بدل پاتی۔ سیاحت کے حوالے سے بھی اگر تجزیہ کیا جائے تو چولستان سیاحوں کیلئے ایک تاریخی اور پرکشش مقام ہے اگر اس کی اہمیت کو تاریخی حوالے سے اجاگر کیا جائے تو ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کیلئے روح افزا مقام ہے۔پانچ ہزار سال قبل جب سکندر اعظم دنیا فتح کرنے نکلا تو اس نے اوچ کا قلعہ فتح کیا اور اس میں کئی روز تک قیام کیا چولستان میں اس وقت بہت سے قلعے سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے ہیں جن میں قلعہ پھلڑ قائم پور ،قلعہ مروٹ ،قلعہ جام گڑھ مروٹ ،قلعہ موج گڑھ مروٹ ،قلعہ مبارک پور چشتیاں ،قلعہ فتح گڑھ امروکہ ،قلعہ میر گڑھ مروٹ ،قلعہ خیر گڑھ ،قلعہ بہاول گڑھ ،قلعہ سردار گڑھ ولہر ،قلعہ مچھلی ،قلعہ قائم پور ،قلعہ مرید والا ،قلعہ دراوڑ ،قلعہ چانڈہ کھانڈہ ،قلعہ خان گڑھ ،قلعہ رکن پور،قلعہ لیارہ صادق آباد قلعہ کنڈیرہ صادق آباد ،قلعہ سیوراہی صادق آباد قلعہ صاحب گڑھ ،قلعہ ونجھروٹ ،قلعہ دھویں ،قلعہ دین گڑھ ،قلعہ اوچ ،قلعہ تاج گڑھ ،قلعہ اسلام گڑھ ،قلعہ مو مبارک ،قلعہ ٹبہ جیجل حاصل ساڑھو قابل ذکر ہیں۔ چولستان میں موجود تاریخی مقامات ،قدرتی ماحول کلچر کو اگر تھوڑی سی توجہ مل جائے تو سیاحت میں ایک کثیر زر مبادلہ چولستانیوں کی محرومیوں کے ازالے کا سبب بن سکتا ہے۔ فورٹ عباس کے مقام پر اس بڑے صحرائی خطہ میں ایک قدرتی دھودھلہ جنگل بھی واقع ہے اگر یہاں سیاحت کیلئے لال سوہانرا طرز کا قدرتی ماحول سے آراستہ وائلڈ لائف پارک بنا دیا جائے تو اس سے ہونے والی آمدن کو بھی چولستان کی ترویج و ترقی پر صرف کیا جاسکتا ہے۔

’’پانی زندگی ہے ‘‘ کی مثال کو اگر لیا جائے تو یہ مثال حقیقت میں چولستان پر صادق آتی ہے ماضی کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو ریاست بہاولپور کے آخری فرمانروا نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی کا وہ عزم نظر آتا ہے جو انہوں نے ہیڈ پنجند سے چولستان کو سیراب کرنے کیلئے ایک بڑی نہر نکالنے کی شکل میں شروع کیا جو آنے والے ہر حکمران کا منتظر ہوتا ہی چولستان میں اک عرصہ سے بارش نہ ہونے سے مقامی روہیلوں کا روزگار دن بدن ختم ہوتا جارہا ہے جانوروں اور انسانوں کی صحت پر مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں جبکہ ان کی بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں۔



ایک طرف آبشاریں اور وادیاں ہیں ،سبزہ ہے، موسم سرد اور خوشگوار ہے ،لوگ مطمئن ہیں ،جنت نظیر خطہ ہے ۔دوسری جانب بھوک اور پیاس کی پکار ہے۔ یہاں کوئی ملک ریاض نہیں آتا ،حکومتیں بخوبی تھر اور چولستان کی ناگفتہ حالت کے بارے میں جانتی ہیں،کوئی بھوکا ہے، پیاسا ہے۔حکمرانوں اور ریاست کا رویہ تو یہ ہے ’’ہوگا مجھے کیا‘‘ محض چند فلاحی، رفاحی اور مذہبی تنظیمیں ان آفت زدہ علاقوں میں آتی ہیں ۔ پانی اور خوراک بانٹ کر چلی جاتی ہیں۔ یہاں کے باسیوں کے کچھ دن سکون سے گزر جاتے ہیں۔اس کے بعد وہی بھوک ،وہی پیاس۔کوئی ایسا انفراسٹکچر آج تک نہیں بن سکا جو چولستان اور تھر کو آباد کر سکے اور یہاں کے باسیوں کی ضرورتیں پوری کر سکے۔

طاہر اصغر مصنف و صحافی ہیں ان کی دلچسپی کے موضوعات پروفائل اور آپ بیتی لکھنا ہے۔ وہ جالب بیتی اور منٹو فن و شخصیت کی کہانی کے مصنف ہیں۔ زیر طبع ناول ’’قصہ غوغا غٹرغوں‘‘ ہے ۔موسیقی اور ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔