صحافی حقائق سے پردہ ضرور اٹھائیں مگر اپنی حفاظت کو بھی یقینی بنائیں

صحافی حقائق سے پردہ ضرور اٹھائیں مگر اپنی حفاظت کو بھی یقینی بنائیں
بعض اوقات صحافی نڈر اور بے باک انداز میں کچھ مسائل کے بارے میں آواز اٹھانے کے باعث نمایاں ہو جاتے ہیں اور پریشر گروپس کے نشانے پر آ جاتے ہیں۔ 24 اپریل 2022 کو خانیوال کے نواحی علاقے بھیرووال میں نجی ادارے Seven News کے مقامی نمائندے ضیاء الرحمٰن کو مبینہ طور پر ناجائز قبضے کی کوریج کرنے کے باعث قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعہ جہاں ملک میں آزادی صحافت کو درپیش خطرات کی نشاندہی کرتا ہے وہیں ہمیں حقائق پر روشنی ڈالنے سے پہلے اپنی حفاظت کا ادراک کرنے اور ضروری اقدامات اٹھانے کی بھی تلقین کرتا ہے۔

صحافی ضیاء الرحمٰن کے قتل جیسے واقعات جمہوری معاشرے میں میڈیا کے نگران کردار کو ناکام بناتے ہیں۔ کیونکہ صحافیوں کو آزادانہ طور پر کام کرنے کے لیے محفوظ ماحول درکار ہے لیکن غیر جانبدار خبر اور آزاد تجزیہ انتقامی کارروائی کے خوف سے ازخود سنسرشپ کا شکار ہو جاتا ہے جس سے عوامی رائے میں خلا پیدا ہو جاتا ہے اور بے یقینی کی فضا پھیل جاتی ہے۔

صحافی ضیاء الرحمٰن کے قتل کیس کے مدعی امیر حیدر شاہ کھگہ بتاتے ہیں کہ اس کیس کی پہلی تفتیش کے بعد تمام ملزم ایف آئی آر درج ہونے کے بعد مرکزی ملزم اللہ رکھا اور دیگر 9 ملزمان میں سے 5 افراد گرفتار ہو گئے تھے جن میں سے مرکزی ملزم گرفتار ہے لیکن دیگر 5 ملزمان عبوری ضمانت پر رہا ہو گئے ہیں جبکہ دیگر 4 ملزمان تاحال عدالت یا کسی تفتیش میں پیش نہیں ہوئے ہیں۔ ان کے عدالت سے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے ہیں لیکن مفرور ملزمان گرفتار نہ ہونے کے باعث کیس میں فرد جرم عائد نہیں ہوئی ہے۔ اس دوران مخالف پارٹی جبکہ مرکزی ملزم کی عبوری ضمانت منظور نہ ہونے پر تفتیش تبدیل کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اب ڈی ایس پی طارق پرویز میاں چنوں اس کیس کو ازسرنو سن رہے ہیں۔ جبکہ تھانہ کہنہ خانیوال کے ایس ایچ او گزشتہ دو ماہ سے مطلوبہ ملزمان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں جس سے مخالف پارٹی کو بالواسطہ ریلیف مل رہا ہے۔

سابق حکومت نے رپورٹنگ کے دوران شہید ہونے والے صحافیوں کے لیے تمغہ امتیاز کا اعلان کیا تھا۔ جس میں صحافتی تنظیم پی ایف یو جے کی سفارشات اور ساتھی صحافیوں کی تصدیق پر ضیاء الرحمٰن فاروقی کو سول صدارتی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے جبکہ مقامی و قومی سطح کی صحافی تنظیمیں اس کیس کی پیروی کر رہی ہیں تاکہ ضیاء الرحمٰن کو انصاف ملے۔

اس کیس کے حوالے سے ضلعی پولیس کو رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت 6 ستمبر اور 23 ستمبر جبکہ صوبائی چیف انفارمیشن کمشنر کو 14 اکتوبر کو کیس کی موجودہ صورت حال کی معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی تھی جس پر تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

پاکستان میں میڈیا انڈسٹری مسلسل پھیل رہی ہے۔ اس سے میڈیا انڈسٹری اور صحافیوں پر حقائق کو درست اور ذمہ دارانہ طریقے سے رپورٹ کرنے کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ لیکن میڈیا کے اہم کردار کے باوجود آزاد صحافت کو درپیش مسائل کے باعث پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک میں کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں صحافیوں کے تحفظ اور آئینی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے صحافیوں، مقامی صحافتی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں نے برسوں محنت کی ہے۔ جس کے باعث قومی اسمبلی سے 8 نومبر2021 کو جرنسلٹ پروٹیکشن ایکٹ اور سندھ اسمبلی سے 20 نومبر 2021 کو دی سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ 2021 منظور کیا گیا۔

اس ایکٹ میں صحافیوں اور میڈیا کے پیشہ ور افراد کی آزادی، غیر جانبداری، تحفظ اور آزادی اظہار کو فروغ دینے اور تحفظ کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس بل کے باعث حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ موجودہ یا مستقبل کے انسداد دہشت گردی یا قومی سلامتی کے قوانین کو غلط طریقے سے استعمال نہ کیا جائے۔ جبکہ صحافت کے بنیادی اصولوں کو تسلیم کرتے ہوئے رازداری کے حق اور ذرائع ظاہر نہ کرنے کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اسی طرح صحافیوں کے خاندان، گھر اور روابط میں بھی مداخلت پر روک لگائی گئی ہے۔

پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل رانا عظیم بتاتے ہیں کہ یہ ایکٹ سینیٹ سے تاحال پاس نہیں ہوا بصورت دیگر اس ایکٹ پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے آزاد کمیشن قائم کیا جانا تھا۔ ایکٹ میں تجویز کردہ کمیشن صحافیوں کو دی جانے والی دھمکیوں یا تشدد، قتل، پرتشدد حملوں، جبری گمشدگی اور صحافیوں کو غیر قانونی گرفتاریوں کے خلاف شکایات کی انکوائری اور قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل تھا۔

تنازعات سے متعلق حساس صحافت کی تربیت حاصل کرنے کے لیے بہت سارے میڈیا گروپس جیسے انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس اور پوئنٹے انسٹی ٹیوٹ فار میڈیا سٹڈیز کا مرتب کردہ مواد آن لائن دستیاب ہے جو پاکستان میں حساس نوعیت کی صحافت کے لیے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی حوالے سے برطانوی ہائی کمیشن، سنٹر آف ایکسیلینس ان جرنلزم (آئی بی اے) اور بہت سے دیگر ادارے صحافیوں کو تنازعات اور خانہ جنگی کے شکار علاقوں کی رپورٹنگ کے حوالے سے میڈیا کی بنیادی اخلاقیات اور ذمہ دارانہ صحافت کے حوالے سے تربیت دے چکے ہیں۔

صحافی تحفظ ایکٹ کی منظوری بلاشبہ پاکستان میں آزادی صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے ایک مثبت لمحہ ہے اور پاکستانی قانون ساز اس اہم قدم کے لیے خراج تحسین کے مستحق ہیں لیکن اس اقدام کی کامیابی سینیٹ سے منظوری، آزاد کمیشن کے قیام اور مکمل طور پر اس کے نفاذ پر منحصر ہے۔ جبکہ صحافیوں کے خلاف ہونے والے جرائم جن میں 51 صحافیوں کے قتل بھی شامل ہیں، سے ٹھوس کارروائیوں کی مدد سے ہی نمٹا جاسکتا ہے۔ کمیشن اور متعلقہ حکام کو قومی اور بین الاقوامی قوانین کو بھی تسلیم کرنا ہوگا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس قانون سے حقیقی معنوں میں افادیت حاصل کی گئی ہے۔

فیصل سلیم میڈیا سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور مختلف نیوز ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں سماجی مسائل اور دلچسپ حقائق شامل ہیں۔