تاریک ایام: اپنی شناخت کی تلاش میں بھٹکتا ہوا خاندان

تاریک ایام: اپنی شناخت کی تلاش میں بھٹکتا ہوا خاندان

تاریخ ہمیشہ بادشاہوں کی لکھی گئی ہے مگر (اس روایت کو توڑتے ہوئے) ’ تاریک ایام‘ عام انسانوں کی تاریخ ہے۔ ’ تاریک ایام‘ کی کہانی انکی کہانی ہے جو تاریخ کا سب سے مظلوم اور پسہ ہوا طبقہ ہے بلکہ یوں کہئیے کہ یہ انکی تاریخ ہے جو سماج کا 98٪ ہیں۔


اس ڈرامہ کے مصنف ہینی مانکل ایک (Subaltern) مصنف ہیں جن کا تاریخ کو دیکھنے کا زاویہ بادشاہوں اور امراء کی تاریخ قلمبند کرنا نہیں بلکہ عام انسانوں کی تاریخ کو رقم کرنا ہے۔ اس ناول کا اردو ترجمہ ٹونی عثمان نے کیا جو کہ ایک تھیٹر اور ڈرامہ آرٹسٹ ہیں انہوں نے اس کہانی کو اوسلو میں سٹیج پر بھی پیش کیا جسے یقینًا خوب سراہا گیا۔


تاریک ایام‘ ( ناول) ایک ایسی کہانی ہے جس کا تعلق تاریخ کے ہر عہد سے ہے۔ یہ ڈرامہ تیسری دنیا کے بہت سے ایسے گھرانوں کی کہانی ہے جنہوں نے اپنے وجود کی بقاء کے لئے اپنی جانوں کا سودا کر ڈالا۔ یہ بادشاہوں، رئیس زادوں ، جاگیر داروں کا افسانہ نہیں بلکہ عام انسانوں کی آپ بیتی ہے جہاں ہر عام انسان اپنی جہتوں بھری زندگی کا مرکزی کردار (خود) ہے۔یہ کہانی محلوں اور بنگلوں کی نہیں بلکہ ایک چھوٹے سے کچے مکان پر مشتمل ہے جہاں ایک خاندان اقتدار اور آسائشوں کی مانگ نہیں کر رہا بلکہ اپنی شناخت کا حق تلاش کر رہا ہے۔



 



تاریک ایام‘ ( ناول) ایک ایسے گھرانے کی کہانی ہے جو اپنے ملک میں ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ریاستی جبر کی بھینٹ چڑھ گئے اور بالآخر جب اپنے دیس میں رہنا ممکن نہ رہا تو بارڈروں کی سختیوں نے بھی انکی شناخت چھین لی۔



 



یہ ایسے مظلوم باپ کی روداد ہے جو مزدور حقوق کیلئے ٹریڈ یونین میں سرگرم رہا، جس نے وقت کے فرعونوں کو للکارنے کی کوشش کی ، اس ریاست کے خلاف آواز اٹھانے کی جراءت کی جہاں سچ لکھنے پر ہاتھ اور بولنے پر زبان کاٹ دی جاتی ہے۔ سچ کہنے اور اسکا پرچار کرنے پر ریاست اسکی جان کی پیاسی بن گئی تو اس شخص کو (خاندان سمیت) ملک بدر ہونا پڑا تاہم نظام کی جبریوں کے باعث یہ مرحلہ بھی آسان نہ رہا تو وہ انسانی سمگلنگ گروہ کے ہتھے چڑھ گئے۔ اس انسانی سمگلنگ گروہ نے انہیں ڈوبتی اور بوسیدہ کشتوں میں سوار کر دیا ۔ بوسیدہ کشتی پر سفر کے دوران ایک خوفناک حادثے میں تین افراد پر مشتمل کہانی کا ایک اہم کردار (ماں) اپنے شوہر اور بیٹی سے ہمیشہ کیلئے جدا ہوگیا۔



 



ماں کو کھو دینے کے بعد کہانی کے دو مرکزی کردار (باپ اور بیٹی) ایک نامعلوم جگہ پر مکالمہ کی صورت اپنے ساتھ ہوئے جبر کی توضیحات پیش کر رہے ہیں اور بھیڑیے نما سماج کا سراغ لگائے بغیر اپنی شناخت کو کھوجنے کی کوشش کر رہے ہیں۔




باپ اور بیٹی کے درمیان یہ مکالمہ حالات کی کسم پرسی اور ماں(بیوی) کے مر جانے کا سوگ منا رہا ہے۔ اس افسانے میں باپ کا کردار بیک وقت شفقتوں بھرا اور بھیڑیا نما ہے۔ جسے اپنی بیٹی کی طاقت اور اسکے ساتھ کا مان بھی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اسکی مردانگی کیلئے چیلنج بھی۔ گویا وہ انسان حالت اضطراب کی بلندیوں پر پہنچ کر پاگل ہو چکا ہے اور حالات کی سنگینیوں نے اسے اس مقام پر لاکھڑا کیا کہ اسے اپنی بیوی اور بیٹی میں تمیز نہ رہی۔ 



 



بیٹی اور باپ کے درمیان ہونے والا یہ مکالمہ وہ تمام سوالات اٹھانے کیلئے کافی ہے جس کے جوابات قدرت جاننا چاہتی ہے کہ کہ کیا ہر سماج میں سچ بولنا نا قابلِ معافی جرم ہے؟ انسانی معاشروں میں بارڈروں کی سختیاں صرف پسہ ہوا طبقہ ہی کیوں برداشت کرتا ہے؟ جب قدرت نے تمام وسائل تمام انسانوں کیلئے بنائے ہیں تو وہ کون سا طبقہ ہے جو خلاف قدرت انہیں تقسیم کرتا ہے؟ جب قدرت نے سب کیلئے ایک آسمان بنایا جس کا سایہ بغیر کسی تفریق کے سب پر پڑتا ہے تو ایسے میں وہ کون سا طبقہ ہے جس نے قدرت کی تخلیق کردہ اس زمین میں انسانوں کو بارڈروں کی صورت قید کر دیا؟



 



تاریک ایام کی کہانی کا ایک اہم پہلو بارڈروں کی سختیاں ہیں جہاں ریاستی جبر سے اکتائے انسانوں کے لئے کسی ملک کے پاس جگہ نہیں۔ اس کتاب کے مصنف نے بارڈروں کی سختیوں کو بیان کرنے کیلئے ایسی طاقتوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے جو پسماندہ ممالک کا استحصال کر کے ترقی کے راستے پر تو گامزن ہوگئیں تاہم اب ان پسماندہ ممالک کے لوگوں کیلئے ان کے پاس کوئی جگہ نہیں۔



 



اس کتاب کا ایک اور اہم پہلو انسانی سمگلنگ کے گھناؤنے دھندے کا پردہ فاش کرتا ہے جہاں انسان اپنی جان داؤ پر لگا کر انکے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور وہ ان تارکینِ وطن کو بوسیدہ کشتیوں اور کنٹینروں پر سوار کردیتے ہیں۔ ایسے تارکینِ وطن میں سے کچھ راستے میں مر جاتے ہیں، کچھ بحری افواج کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، کچھ لاپتہ ہوجاتے ہیں اور کچھ اس خوفناک صورتحال کو دیکھ کر پاگل ہوجاتے ہیں (اس کہانی کا مرکزی کردار بھی ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے)






کتاب کی مکمل کہانی اور خصوصاً اختتام لکھنا ایک کٹھن مرحلہ ہے ۔ دریں اثناء یہ ناول ہے تو ناول کی کہانی کو مکمل کھل کر بیان کرنا قارئین سے زیادتی ہے۔



 



اس ناول کو پڑھنے کے بعد اس خاندان کی بے بسی ، لاچارگی اور خانہ بدوشی کو شدت سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر بارڈروں کی تاروں میں قید محنت کش طبقے کی بیڑیوں کو سمجھا جاسکتا ہے۔ 


یہ کتاب صرف ایک سویڈش ناول نہیں بلکہ اسکے اندر موجود کہانی کا تعلق ہر خطے کے محنت کش طبقہ سے ہے۔ یہ ناول انسان دشمن ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کا پرچار کرتا ہے۔ یہ ناول سرمایہ دارانہ نظام کی  پیدا کردا باڑوں کی صورت انسانوں کی تقسیم کا پردہ چاک کرتا ہے۔ یہ ناول انسان دوستی ،انصاف پسندی اور انسانیت کا احساس دلاتا ہے۔ 

حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔