خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کے فلسفے میں خطے کا امن پوشیدہ ہے

خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کے فلسفے میں خطے کا امن پوشیدہ ہے
'میری سیاسی سوچ، فکر اور نظریہ قدرت کی طرف سے ایک روحانی آگاہی کا نتیجہ ہے جس کے تحت میں نے ہوش سنبھالتے ہی فرنگی استعماری قبضے کو پشتونوں کی غلامی، دربدری کا سرچشمہ سمجھا۔ یہ نہ تو کسی سیاسی جماعت اور نہ ہی کسی سیاسی سوچ سے متاثر ہونے کا شاخسانہ ہے۔

ہوسکتا ہے یہ سب کچھ استحصالی اور بدحالی کو دیکھ کر فطرت نے میری زندگی کے عظیم مقصد، فکر اور نظریہ کی بنیاد رکھی ہو اسی لیے پہلے ہی دن سے یہ عہد کیا کہ میں پرامن رہ کر اپنی تمام توانائیاں سیاست میں لگانے اور اپنے منزل مقصود پر پہنچنے کا رستہ چنوں گا۔'

اپنی خودنوشت میں وہ مزید رقم طراز ہیں کہ 'میں نے تعلیم مڈل تک مکمل کرکے اسے اس لیے خیرباد کہا کہ تعلیم کے فضائل لوگ انگریز کی نوکری اور ان کے استعماری نظام میں شامل ہو کر محکومی کو وسعت دینے کا وہ وسیلہ بتاتے ہیں جس سے ذاتی منافع اور منصب بنایا جاسکتا تھا۔ اسی لیے میں نے انگریز کی نوکری کو پہلے ہی دن سے اپنے لیے حرام سمجھ رکھا ہے اور تعلیم کو ادھورا چھوڑنے پر آج تک مجھے پچھتاوا نہیں۔'

ہوش سنبھالتے ہی خان شہید عبد الصمد خان اچکزئی اپنے وطن کو گنڈمک کے مسلط کردہ معاہدے کے تحت فرنگی استعماری قبضے میں دیکھتا ہے، فرنگی سیاسی اور آمرانہ نظام کے تحت جنوبی پشتونخوا کو افغانستان سے الگ کر کے اسے برٹش افغانستان کے بجائے غیر فطری نام برٹش بلوچستان دیا جاتا ہے، موجودہ خیبر پشتونخوا این ڈبلیو ایف پی، جبکہ وسطی پشتونخوا فاٹا کے ناموں سے پکارے جاتے ہیں۔
دنیا کا ہر فلسفہ اور نظریہ انسانی ضروریات کے حل کے لیے زمان اور مکان کے تابع ہو کر وجود میں آتا ہے۔

انسان جب بھی شعور اور آگاہی کا سفر شروع کرتا ہے تو وہ زندگی، فطرت اور کائنات کے نظاروں پر غور کرنے لگ جاتا ہے۔ دنیا کا ہر فلسفی ایسی صورت حال میں اپنے سامنے سوالات رکھتا ہے اور پھر ان کے جواب ڈھونڈنے کے لیے تگ و دو کرنے لگتا ہے۔

خان شہید جب آنکھیں کھولتا ہے تو اس کے مادر وطن کے لوگ فرنگی قبضے کے تاریک اور غیر انسانی نظام کے زیر تسلط رہ کر غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

یہی وہ حالات ہوتے ہیں جہاں محکومی سے نجات کے لیے غلاموں میں وہ ذہن پیدا ہوتے ہیں جو اپنی سوچ، فکر اور سیاسی نظریہ کی پختگی کے ذریعے شعور پھیلانے کے ذریعے غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے سیاسی قوت بنتے ہیں۔ دنیا کے نظریات اور افکار انسانی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر ابھر آتے ہیں، یہاں بھی غلامی اور محکومی سے نجات وقت کی عین ضرورت تھی۔

معاشرہ اتنا پسماندہ رکھا گیا ہے کہ اب ان کے ذہنوں میں آبا و اجداد کی آزادی کے قصے نا ممکنات لگنے لگے ہیں۔

دربدری کی اس صورت حال میں ان کے وسائل لوٹ لیے جا رہے ہیں اور انگریز حکمرانوں کی کتاب میں انسانی تہذیب و آزادی کے حرف تک موجود نہیں۔

انگریزی استعمار کی آزاد افغانستان کو اپنے تسلط کے تحت لانے کے خاطر دو انگریز افغان جنگیں ہوئیں جن میں انگریزوں کی اس وقت کی جدید آرمی اور کرائے کے لشکروں کو افغان ملی لشکر کے ہاتھوں بدترین شکست ہوئی اور تیسری شکست خان شہید کی زندگی میں ہونے والی ہے۔

یہ فطرت کا قانون اور انسانی آزادی کی ایک اٹل حقیقت ہے کہ غلاموں کے سماج میں ایسے عظیم لوگ پیدا ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو آزادی کا علم اٹھانے کے لیے وقف کر دیتے ہیں اور قوم و وطن کی محبت ان کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ لہٰذا وہ اس کٹھن وقت میں اپنے فیصلے کو دوام دینے کے سفر میں ہر تکلیف اور اذیت کو خوشی سے اس لیے قبول کرتے ہیں کہ ان کی قوم کی آنے والی نسلوں کی زندگی سنور جائے جیسے کہ منصور نے دار پہ بھی نعرہ حق بلند کیا تھا۔

ایسے افراد صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتے ہیں اور بچپن ہی سے وہ الگ سوچتے اور الگ فیصلے کرتے ہیں۔ بچپن ہی میں خان شہید کی روح اور ذہن اتنی پاک اور عظیم ہے کہ پشتون سماج میں رہ کر بھی وہ یہ عہد کرتا ہے کہ اگر میرے پیارے اور بڑے بھائی کا اگر کسی کے ساتھ جھگڑا ہو جائے تو وہ اس میں حصہ دار نہیں ہوں گے۔ کیونکہ وہ منطق اور دلیل کو عدم تشدد کے ذریعے رائج کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی مکمل سوچ صرف اور صرف اپنی قومی تحریک کا مقدمہ لڑنے پر مرکوز ہے۔

کیونکہ خان شہید صرف ذہنی طور پر آزادی کا نہ صرف خواب دیکھتا ہے بلکہ اس خواب کو پہلے ہی دن سے منطقی طور پر عدم تشدد کی بنیاد پر اپنے لوگوں میں عملی سیاست کے ذریعے پھیلاتا ہے تا کہ تاریخ کے ایک اہم موڑ سے گزرتے ہوئے اپنے معاشرے میں انقلابی جذبہ اور ولولہ پیدا کرے۔ انگریزی زبان میں ایسے عظیم ہیروز کو 'سٹیٹس مین' کہا جاتا ہے۔

جدید سائنس کی ریسرچ بھی کسی نظریے کے عملی ہونے کے سائنسی پراسیس کے نتیجے ہی کی صورت میں اسے تسلیم کرتی ہے۔ تو ہم بجا ہوں گے کہ خان شہید کا دیا ہوا سیاسی نظریہ اور پرامن تنظیم منطق اور عقل کی وہ عملی معراج ہے جس کے اس خطے میں آثار ان سے پہلے نظر نہیں آتے۔

خان شہید اس سیاسی نظریے کے پرچارک کے طور پر سب سے پہلے اجتماع کو مسجد کے ممبر پر کھڑے ہو کر قرآن کریم کی آیات کا پشتو میں ترجمہ کرنے سے پہل کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ پشتونوں کو ملی سیاسی شعور دین مبین اسلام کے وضح کردہ راستے سے بہترین راستہ اور کیا ہوسکتا ہے۔

اسی لیے وہ پشتون افغان کلچر میں سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والے مرکز یعنی مسجد کو اپنی قومی تحریک کی ابتدا کرنے کے لیے منتخب کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے کلام پاک کی آیات کا ترجمہ پشتو زبان میں بیان کرکے اپنے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں تاکہ اپنے لوگوں میں قومی آزادی کا شعور اور بیداری پیدا کی جا سکے۔

ادھر فرنگی انٹیلیجنس ایجنسی کو پتہ چلتا ہے اور پولیٹیکل ایجنٹ خان شہید کو بلا لیتا ہے اور ان سے مسجد کے ممبر پر تقریر کرنے کے بارے میں استفسار کیا جاتا ہے۔ کیونکہ انگریزی سرکار کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ اگر تاریخ کی سب سے پہلی پشتونوں کی پرامن ملی سیاسی تحریک جدید خطوط پر استوار ہو کر مذہب کے تمام اصولوں کے عین مطابق رکھی گئی تو ان کے استعماری قبضے کے دن گنے جا چکے ہوں گے۔

اس لیے خان شہید کو گھمبیر نتائج کی دھمکی دی جاتی ہے مگر جب کوئی ملی سیاسی ذہنی سطح پر ایک نظریے کو اپناتے ہیں تو وہ ذات کو قوم اور ملت کے لیے آزادی جیسی عظیم نعمت پر پہلے ہی قربان کرنے کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے۔ یہاں خان شہید فرنگی پولیٹیکل ایجنٹ کو کہتا ہے کہ وہ کون سا جرم کر رہا ہے، وہی حقوق مانگ رہا ہے جو کہ دیگر ہندوستان کو دیے گئے ہیں۔

یہی وہ زمان اور مکان ہوتے ہیں جہاں فکری نظریات جڑیں پکڑ کر عزائم کو پختہ کر دیتے ہیں۔

خان شہید کو اذیتیں ملنے کے بعد اپنے وضع کردہ راستے اور جدوجہد پر پختہ یقین ہے کیونکہ وطن، ملی سیاست، شناخت، زبان، کلچر، تاریخ، سماج ان کی محبت کے محور بنے ہوئے ہیں۔ یہاں جو بھی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں وہ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں کیونکہ ان کی سیاسی سوچ کی بلوغت اور پختگی انہیں منزل دکھا رہی ہے۔

خان شہید کو اپنے نظریات پر اس قدر پختہ یقین تھا جس کی راہ میں انہوں نے زندگی کے حسین 33 سال جو کہ ان کی زندگی کا پچاس فیصد عرصہ بنتا ہے، فرنگی استعمار اور پاکستان بننے کے بعد مارشل لاؤں کی کال کوٹھڑیوں، جیلوں، نظربندیوں اور لمبی سزاؤں میں گزار دیے۔

ان اذیتوں نے خان شہید کے ارادے، ہمت اور حوصلے اور بھی بلند کر دیے کیونکہ وہ پروردگار کی ذات کے علاوہ باقی تمام قوتوں کو تبدیلی کے ماتحت سمجھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی ذات، اپنے وطن اور ملت کی محبت پر یقین اس عزم کے ساتھ اپنے لوگوں کے رویوں کو تبدیل کرنے کے لیے جہد مسلسل کا راستہ اپنائے ہوئے تھے۔ ہم ان کے ان افکار اور سیاسی جدوجہد کی بنیاد پر انہیں اس لیے برملا رہبر (Statesman) سمجھتے ہیں کہ ان سے پہلے یا پھر ان کے بعد پشتون قومی تحریک کی عدم تشدد پر ایسی سیاسی، سائنسی اور علمی بنیاد کسی اور نے نہیں رکھی۔

عوام میں تقریر اور تحریر جبکہ زندان میں وہ اپنے لوگوں کے ذہنوں اور نفسیات پر غور کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ بحیثیت ایک طالب علم کے سماجی سائنسز اور آرٹس اینڈ ہیومینیٹیز میں خان شہید عبد الصمد خان اچکزئی کی آٹو بائیو گرافی کو سائنس اور آرٹس کے جدید خطوط پر تحقیق کرنے والے طلبہ اور اساتذہ کے لیے مشعل راہ اس لیے سمجھتا ہوں کہ وہ بیک وقت سیاست، قانون، جرائم، سماج، حسن، روحانیت، نفسیات، معاشیات، میڈیا، فلسفہ، تاریخ، جدلیات، ادب اور نثر سمیت انسانی زندگی اور سماجی ضرورتوں کے تمام مضامین پر ایک ایسی سائنسی تحلیلی بحث کرتے ہیں کہ اب بھی اس دوراندیشی اور مدلل بحث سے سماج کو سمجھنا ایک خواب ہی لگتا ہے۔ مگر جب بندہ بیک وقت عملیت اور عقلیت کے رستے پر ہو کر اپنے آپ کو وطن اور لوگوں کی آزادی کے لیے قربانی دینے کا سفر شروع کرتا ہے تو اس کی ہر گفتار اور کردار آنے والی نسلوں کے لیے حل کے نسخے بن جاتے ہیں۔

خان شہید پاکستان بننے کے بعد پہلے سیاسی قیدی بنے جنہوں نے لاہور عدالت میں اپنے سیاسی نظریے کا ایسا تاریخی دفاع کیا جس کی پیروی کرنے کے لیے اب تمام محکوم اقوام اور جمہوری سیاسی قوتیں یکجا ہو گئی ہیں۔

وہ 23 مارچ 1940 کی قرارداد پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کی متحدہ ہندوستان میں یہ قرارداد صوبوں کے حقوق کے لیے تھی مگر اب پاکستان بننے کے بعد جب میں وہی حقوق مانگنے لگا ہوں تو میں کون سے جرم کا ارتکاب کرتا ہوں؟

لاہور ہائیکورٹ میں خان شہید کا بیان نہ صرف پشتونوں بلکہ تمام محکوم اقوام اور جمہوری قوتوں کا پاکستان کو ایک شفاف حقیقی جمہوری فیڈریشن بنانے کی سب سے پہلی سیاسی اور منطقی دلیل ہے۔

زیارت کے بزرگ بابو صاحب کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ پشتونخوا وطن اور آزاد افغانستان میں جب سوشلسٹ اور کیپیٹلسٹ کیمپوں کے پروجیکٹس مسلط کیے گئے اور داؤد نے ظاہر شاہ سے تخت چھین لیا تو خان شہید نے اس عمل کو افغان سوسائٹی کے سیاسی اور سماجی ارتقا کے برخلاف قرار دیکر اسے افغان سوسائٹی کی تقسیم اور وطن کو اوروں کے اشاروں پر آگ و خون میں دھکیلنے کی سنگین غلطی قرار دیا تھا۔

چونکہ پشتونخوا میں سوشلزم کے نئے نویلے طلبہ نے خان شہید کی اس دوراندیشی کو شک کی نگاہ سے دیکھا مگر اب اس کے دوراندیش فکری نظریات کو 50 سالہ جنگ اور تباہی جس سے آزاد افغانستان تو آگ کے شعلوں میں رہا اور ساتھ ہی پشتونخوا وطن اس کے اثرات سے دو چار ہوا ہمارے سامنے ہے۔

لمبی جنگ مسلط کرکے نہ سوشلسٹ یہاں ٹھہر سکے اور نہ ہی کیپیٹلسٹ، رہ گئے ہم اور ہماری تباہی وبربادی، قتل عام اور بربادی کی داستان۔

آج ایک مرتبہ پھر ہم اس عظیم رہبر کی برسی ایک ایسے دور میں منا رہے ہیں جب خان شہید کے پشتون قومی سوال کی پرامن ملی اور اسلامی اقدار پر مبنی نظریے کی بنیاد پر افغانستان کے استقلال، اتحاد اور امن کے دفاع کرنے، عالمی بدمعاشوں کے جنگی پروجیکٹس اور خطے کے بدمعاشوں کی افغانستان میں مداخلت کو بند کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں خان شہید عبد الصمد خان اچکزئی کا ملی، سیاسی اور جمہوری نظریہ پر قائم پشتون قومی تحریک کی زندہ اور توانا شکل پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے محترم چیئرمین محمود خان اچکزئی کی رہبری میں پراثر اور پرمغز سیاسی بیانیہ جس میں افغانستان کے استقلال کا دفاع، وہاں پر افغان لویہ جرگہ بلانے، اس کے ذریعے ایک ایسے اثاثی قانون بنانے کے ذریعے جنگ کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کا رستہ ہمیشہ کے لیے بند کرنے، یہاں پر عالمی بدمعاشوں کی مسلط شدہ جنگ اور علاقائی بدمعاشوں کی افغانستان میں مداخلت بند کرنے، افغانستان کی 50 سالہ تباہی و بربادی میں رول ادا کرنے والے بدمعاشوں سے جنگ کی تباہی کا ازالہ کرانے، جبکہ پاکستان پشتون قومی سیاسی جمہوری سوال کے تحت انہیں برابر قوم کی حیثیت دلانے، پشتونخوا وطن کے عوام کی سیاسی اختیار کو ماننے، ملک کو اقوام کی حقیقی سیاسی جمہوری فیڈریشن بنانے، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کرنے، فوج کی سیاست میں مداخلت کا راستہ روکنے، آزاد خارجہ اور داخلہ پالیسی بنانے کا بیانیہ ہے جو پشتون اور دیگر محکوم اقوام کی بقا اور خودمختاری کا ضامن، امن بھائی چارے اور ترقی کا واحد راستہ ہے جو افغانستان، خطے اور دنیا کے امن کے لیے سب سے بہترین لائحہ عمل ہے۔