اسلام آباد عدالت نے نوجوان کے قتل میں ملوث پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا سنا دی

اسلام آباد عدالت نے نوجوان کے قتل میں ملوث پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا سنا دی
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے اسامہ ستی قتل کیس میں دو ملزمان کو سزائے موت اور تین کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔

اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے اسامہ ستی قتل کیس کا یکم فروری کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے افتخار احمد اور محمد مصطفیٰ کو سزائے موت جبکہ سعید احمد، مدثر مختار اور شکیل احمد کو عمر قید کی سزا سنائی۔ محمد مصطفیٰ اور افتخار احمد کو 1، 1 لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کرنے کا حکم دیا۔

تمام تر سزا یافتہ افراد کا تعلق انسدادِ دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) سے ہے۔

گزشتہ برس جنوری 2021 میں اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے پر رات کے ڈیڑھ بجے اے ٹی ایس اہلکاروں نے نامعلوم وجوہات کے باعث جواں سال طالبِ علم اسامہ ستی کو فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ واقعے کو ڈکیتی کا رنگ دینے کی کوشش ناکام رہی۔

واقعے کی تحقیقات کے دوران  انکشاف ہوا پولیس اہلکاروں نے اسامہ ستی کو ناحق قتل کیا تھا جس پر ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف تھانہ رمنا میں مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کیا گیا۔

اسامہ ستی کیس کا ٹرائل دو سال اور ایک ماہ جاری رہا۔

8 جنوری 2021 کو سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد نےپولیس اہلکاروں کومس کنڈکٹ اور قصوروارثابت ہونے پر برطرف کر دیا تھا۔

11 اپریل 2021 کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں اے ٹی ایس اہلکاروں کو اسامہ ستی کے قتل کا ذمہ دار قرار دے دیا گیا تھا اور اس بات کی تصدیق کی گئی کہ پولیس اہلکاروں نے نوجوان کو جان بوجھ کر قتل کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ڈرائیور سمیت پانچ پولیس اہلکاروں نے ستی کی گاڑی پر فائرنگ کر دی جس کا مقصد اسے روکنے کی بجائے مارنا تھا۔

انہوں نے کار پر 19 گولیاں چلائیں، اور تمام گولیاں گاڑی میں پیچھے، بائیں اور دائیں طرف سے داخل ہوئیں۔ فائرنگ پانچ سے دس فٹ کے فاصلے سے کی گئی اور عقبی بائیں اور دائیں جانب کو بالترتیب 12 فٹ اور 15 فٹ کے فاصلے سے نشانہ بنایا گیا۔

گاڑی کی چھت پر ایک گولی لگی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فائرنگ دو ایس ایم جیز اور ایک 9 ایم ایم پستول سمیت تین ہتھیاروں سے کی گئی تھی۔