'بھارت سے متعلق پالیسی راولپنڈی میں بنتی ہے اور اس میں تبدیلی آ چکی'

'بھارت سے متعلق پالیسی راولپنڈی میں بنتی ہے اور اس میں تبدیلی آ چکی'
بھارت سے متعلق پالیسی سویلین حکومت نہیں بناتی، انڈیا کی فائل پنڈی سے آپریٹ ہوتی ہے۔ لائن آف کنٹرول پر مکمل طور پر سیزفائر ہو چکا ہے۔ کہیں نہ کہیں بیک ڈور ڈپلومیسی چل رہی ہے۔ لگتا ہے پنڈی کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے جو لائن آف کنٹرول پر بھی نظر آتی ہے اور بلاول کے دورے سے بھی۔ صحافیوں کو بھی ویزے دیے گئے ہیں۔ دونوں ملکوں میں انتخابات کے بعد مزید تبدیلیاں سامنے آئیں گی۔ یہ کہنا ہے مزمل سہروردی کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت جب کسی چیف جسٹس کے لئے ریلی نکالے گی تو وہ چیف جسٹس خاص سیاسی جماعت کا ہو جائے گا۔ جس تعداد میں لوگوں کو نکلنا چاہئیے تھا نہیں نکلے تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ عوام نے عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے؟ عمران خان تو پاپولر ہیں لیکن آج اگر لوگ چیف جسٹس کے لئے نہیں نکلے تو پھر اس کا مطلب ہے چیف جسٹس غیر مقبول ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ تین رکنی بنچ زیادتی کر رہا ہے۔

پروفیسر اعجاز خان نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی اہمیت کی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا کہ وزیر خارجہ خود اس میں شرکت کریں گے۔ پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوں۔ مجموعی طور پر ہم اسے برا دورہ نہیں کہہ سکتے۔ پاکستان میں بعض حلقوں میں یہ احساس ضرور موجود ہے کہ تناؤ کم ہونا چاہئیے مگر بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان اس وقت پھنسا ہوا ہے ہم اسے کیوں سانس لینے دیں۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ بھارت میں 2024 کے انتخابات سے پہلے دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کا کوئی امکان نہیں نظر آتا۔ دہشت گردی اگرچہ کم ہوئی ہے مگر دونوں ملکوں میں یہ مسئلہ اب بھی موجود ہے۔ بھارت میں طیارہ اغوا کے واقعے میں ملوث ایک شہری کو آج پاکستان میں ہلاک کیا گیا ہے۔ پاکستان نے حافظ سعید کو جیل کے بجائے گھر میں رکھا ہوا ہے اور جیش محمد کے متعلق مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ انڈیا اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہتے لیکن دونوں آگے بھی نہیں بڑھنا چاہتے۔