اہم ترین قانون سازی کے دن اپوزیشن کے 30 ارکان غائب تھے، نواز لیگ سے 11، پیپلز پارٹی کے 8 ارکان غیر حاضر

اہم ترین قانون سازی کے دن اپوزیشن کے 30 ارکان غائب تھے، نواز لیگ سے 11، پیپلز پارٹی کے 8 ارکان غیر حاضر
اسلام آباد: 16 ستمبر بروز بدھ جب کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں انتہائی اہم قانون سازی جاری تھی جس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ہدایات پر کی جانے والی آئینی ترامیم پر ووٹنگ ہونا تھی، اپوزیشن کے 30 ارکان اجلاس سے مختلف وجوہات کی بنا پر غیر حاضر رہے۔ یاد رہے کہ اپوزیشن روزِ اول سے ان میں سے کچھ بلوں کی ڈٹ کر مخالفت کرتی آئی ہے، خاص طور پر ایک ایسی ترمیم کی جس کے مطابق ملک میں دہشتگردوں کی مالی امداد کی تحقیقات کے نام پر کسی بھی شخص کو 180 دن کے لئے بغیر عدالت میں پیش کیے گرفتار رکھا جا سکتا ہے اور یہ طے کرنے کے لئے کہ کس شخص کو گرفتار کیا جائے اور کس کو نہیں، جو وفاقی اور صوبائی سطح پر کمیٹیاں بنائی گئی ہیں، ان میں حساس اداروں کے لوگوں کو شامل کیا جائے گا۔

گذشتہ روز سے میڈیا میں اپوزیشن پر تنقید ہوتی رہی ہے کہ یہ اپنے نمائندگان کو اجلاس میں لانے میں ناکام رہی جب کہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ غیر حاضر ارکان کے باوجود اپوزیشن کے نمائندے زیادہ تھے مگر ووٹنگ میں دھاندلی کی گئی اور سپیکر اسد قیصر نے وعدے کے باوجود دوبارہ گنتی نہیں کروائی جس کے بعد اپوزیشن کو واک آؤٹ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا پڑا۔

اب ایسے تمام افراد کی فہرست سامنے آ گئی ہے جو اس اجلاس سے غیر حاضر رہے تھے اور اس فہرست کے مطابق اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کے 11 اراکین، پیپلز پارٹی کے 8، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور نیشنل پارٹی کے 3، 3 اراکین، عوامی نیشنل پارٹی کے 2، بلوچ نیشنل پارٹی مینگل، بلوچ نیشنل پارٹی عوامی کا ایک، ایک جب کہ ایک انتہائی اہم آزاد رکن قومی اسمبلی اجلاس سے غائب تھے۔

مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے ارکان میں قومی اسمبلی سے پانچ جب کہ سینیٹ سے چھ افراد غیر حاضر رہے۔ ان میں سے احمد رضا مانیکا بغیر کوئی وجہ بتائے اجلاس سے غائب رہے۔ احمد رضا مانیکا خاتونِ اول بشریٰ مانیکا کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ احسان الحق باجوہ کئی مہینے سے دبئی میں ہیں اور ان کی جانب سے پارٹی کو بھی نہیں بتایا گیا کہ وہ کیوں تشریف نہیں لائے۔ ان کے علاوہ تین ارکان ملک افضل کھوکھر، افتخار نذیر اور ریاض حسین پیرزادہ تھے۔ افضل کھوکھر کینسر کے مریض ہیں اور انتہائی بیمار ہیں۔ ریاض حسین پیرزادہ بھی بخار میں مبتلا تھے اور پارلیمنٹ لاجز میں ہی موجود تھے۔ تاہم، پارٹی ذرائع کے مطابق انہوں نے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف کو بتا رکھا تھا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں اور اگر صرف ایک ووٹ کی کمی ہوتی تو یہ ضرور تشریف لے آتے۔ افتخار نذیر البتہ ایک حادثے کی وجہ سے تاخیر سے پہنچے۔

پارٹی سے تعلق رکھنے والے 6 سینیٹرز میں سے صرف سلیم ضیا نے پارٹی کو بتایا کہ وہ بیماری کے باعث شرکت نہیں کر سکتے۔ باقی پانچ افراد بشمول چودھری تنویر نے غیر حاضری کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ ان میں چودھری تنویر کے علاوہ کلثوم پروین، راحیلہ مگسی، دلاور خان اور شمیم آفریدی شامل تھے۔ ان پارٹی رہنماؤں کے بارے میں پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کبھی بھی پارٹی کی ہدایات پر عمل نہیں کرتے۔

پیپلز پارٹی کے آٹھ ارکان جو غیر حاضر تھے، ان میں سے 7 قومی اسمبلی سے ہیں جب کہ ایک روبینہ خالد سینیٹ سے تعلق رکھتی ہیں۔ قومی اسمبلی سے غیر حاضر ارکان میں پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری، غلام علی تالپور، سید خورشید شاہ، عامر مگسی، روشن دن جونیجو اور مخدوم جمیل شامل ہیں۔ خورشید شاہ نیب کی حراست میں ہیں جب کہ آصف علی زرداری سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کے بقول شدید بیمار ہیں۔ لیکن باقی چھ ارکان کے بارے میں پیپلز پارٹی کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں دی گئی کہ وہ کہاں تھے۔


جمعیت علمائے اسلام سے ایم این اے ملک آفرین، سینیٹر طلحہ محمود اور مولانا عطاالرحمٰن غیر حاضر رہے۔ نیشنل پارٹی سے سینیٹرز ڈاکٹر اشوک کمار، محمد اکرم اور طاہر بزنجو اجلاس سے غائب رہے۔

اے این پی سے ایم این اے امیر حیدر ہوتی، سینیٹر ستارہ ایاز، بلوچ نیشنل پارٹی سے اختر مینگل اور ڈاکٹر شہناز بلوچ غیر حاضر رہے۔ حیرت انگیز طور پر قومی اسمبلی میں تند و تیز تقاریر کے لئے مشہور آزاد رکن علی وزیر بھی اجلاس سے غیر حاضر رہے