مدثر نارو کو 13 دسمبر کو پیش کیا جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم

مدثر نارو کو 13 دسمبر کو پیش کیا جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم
اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم دیا ہے کہ وفاقی حکومت جبری طور پر لاپتا صحافی مدثر نارو کو رواں ماہ 13 دسمبر کو عدالت میں پیش کیا جائے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ حکم مدثر نارو کی جبری گمشدگی کے بارے میں دائر کی جانے والی درخواست پر کارروائی پر جاری کیا ہے۔

اس حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اپنے زیر کنٹرول ایجنسیوں کو ہدایات جاری کریں کہ وہ مدثر نارو کے ٹھکانے کا پتا لگانے یا عدالت کے روبرو پیش کرنے کا حکم جاری کریں۔

یہ حکم نامہ 10 صفحات پر مشتمل ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عدالت کو مطمئن کریں کہ ایجنسیاں یا ریاست مدثر نارو کو اغوا کرنے میں ملوث نہیں ہیں۔ اگر جاس کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی جاتیں تو حکومت ذمہ دار اداروں کا پتا لگا کر ان کیخلاف کارروائی عمل میں لا کر عدالت کو آگاہ کرے۔

عدالتی حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مدثر نارو کی عدم بازیابی کی صورت میں اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہو کر اس بارے میں وفاقی حکومت کی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں۔

واضح رہے کہ مدثر نارو کو مبینہ طور پر اُس وقت لاپتا کیا گیا جب وہ 20 اگست 2018ء میں اپنی فیملی کے ہمراہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کیلئے کاغان ناران گئے ہوئے تھے۔ ان کیساتھ ان کی اہلیہ اور 6 ماہ کا بچہ بھی تھا۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ یہ کتنا تکلیف دہ امر ہے کہ مدثر نارو کا تین سالہ بیٹا اپنی دادی کے ہمراہ عدالتی کارروائی کے لیے عدالت میں موجود ہوتا ہے جبکہ جبری طور پر لاپتا شخص کی بیوی پہلے ہی وفات پاچکی ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا کہ وزیر انسانی حقوق اس مقدمے کی اگلی سماعت سے پہلے لاپتہ شخص کے والدین اور بچے کی وزیر اعظم سے ملاقات کو یقینی بنائیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ لاپتا شخص کا پتا لگانا آئینی فرض ہے جس میں ناکامی کے ذمہ داران کی نشاندہی ضروری ہے۔ آئین میں دئیے گئے بنیادی حقوق کی موجودگی میں جبری گمشدگیوں کے رجحان کے پھیلاؤ کیلئے کوئی عذر نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کو انسانیت کیخلاف بدترین جرم سے بچانے کیلئے کسی قانون کے نفاذ کی ضرورت نہیں ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے کہا لاپتا افراد کی بازیابی کیلئے بنائے گئے کمیشن نے مدثر نارو کے مقدمے کے حوالے سے جو جے آئی ٹی بنائی تھی، انھوں نے اپنی رپورٹ میں اس واقعے کی درجہ بندی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘لاپتا ہونے والا شخص اپنی مرضی سے گیا ہے۔‘

عدالت کا کہنا ہے کہ کوئی بھی جیورس پروڈنیس کا شعور رکھنے والا شخص جے آئی ٹی کی طرف سے اخد کیے گئے نتیجے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے اور خاص طور پر ایسے حالات میں جس میں جبری طور پر لاپتا ہونے والا شخص خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہا ہو۔