جہانگیر ترین ایکٹو ہو چکے، نگران سیٹ اپ کیلئے وزیراعظم پی ٹی آئی سے ہی ہوگا

جہانگیر ترین ایکٹو ہو چکے، نگران سیٹ اپ کیلئے وزیراعظم پی ٹی آئی سے ہی ہوگا
مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ نگران سیٹ اپ کیلئے وزیراعظم تحریک انصاف سے ہی ہوگا۔ اس مقصد کیلئے جہانگیر ترین ایکٹو ہو چکے ہیں اور انتہائی اہم ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین گروپ اور اپوزیشن مل کر لیڈ کرے گی۔ یہ ماڈل بالکل بلوچستان کی طرز کا ہوگا۔ پی ٹی آئی کا وزیراعظم جائے گا اور اسی جماعت کا آدمی وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کیلئے آ جائے گا۔ وہی ''نومبر'' والے سارے آئینی اور قانونی معاملات حل کرائے گا۔

یہ بات انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہی۔ فنانس بل کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ اس پر وفاقی کابینہ کے دو سیشنز ہو چکے ہیں۔ فواد چودھری نے بتایا تھا کہ پہلے سیشن میں جب اسے پیش کیا گیا تو اس پر سوالات اٹھے، اس لئے اگلے سیشن میں ان کے جوابات دیئے گئے۔ یہ ایک فقرہ ظاہر کرتا ہے کہ اراکین اس کے خدوخال پر متفق نہیں ہیں۔ منی بجٹ کابینہ سے پاس ہوگا تو اسے پارلیمنٹ میں لایا جائے گا۔ اسے سہولت کاری کے بغیر پاس نہیں کرایا جا سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنے بل بوتے اور سیاسی طاقت پر اسے پاس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ان کی پارٹی کے اندر اختلافات اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ اپنے اراکین کو ہی پارلیمنٹ میں نہیں لا سکتے۔ دوسری جانب اپوزیشن کے پورے نمبر نظر آ رہے ہیں۔ یہ بجٹ پہلے کابینہ سے پاس ہوگا، اس کے بعد سہولت کاری کی درخواست کی جائے گی۔ پھر سہولت کاری کی شرائط طے ہونگی۔ اس کے بعد ہی اسے پارلیمنٹ میں منظور کرانے کیلئے پیش کیا جائے گا۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر ملک چلانا ہے تو واحد حل مسلم لیگ (ن) ہی ہے۔ جو اقتدار میں آ کر ملکی باگ دوڑ سنبھال سکتی ہے۔ اس کے بین الاقوامی تعلقات بھی اس قسم کے ہیں کہ وہ منجدھار میں پھنسی کشتی نکال سکتی ہے۔

مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ عمران خان فلاپ ہو چکے ہیں۔ جو شخص ساری عمر برطانیہ رہا وہ وزیراعظم بننے کے بعد آج تک وہاں کا دورہ نہیں کر سکا۔ وہاں کی حکومت انھیں سٹیٹ وزٹ دینے کو تیار ہی نہیں ہے۔ چینی وزیراعظم شی جن پنگ سے ان کی گذشتہ 10 ماہ سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیشنل ڈپلومیسی میں عمران خان کی ناکامیاں اس قدر زیادہ ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اب ان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ پچھلے ایک سال میں جنرل باجوہ نے غیر ملکی سفیروں سے بہت زیادہ ملاقاتیں کی ہیں۔ وہ ڈپلومیٹک فرنٹ پر بہت ایکٹو نظر آئے لیکن سب کیساتھ مل کر ان پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ عمران خان کے ہوتے چیزیں ٹھیک نہیں ہو سکتیں۔

پروگرام میں شریک گفتگو شاہد میتلا کا کہنا تھا کہ منی بجٹ کو جمعرات کے روز ہی کابینہ سے پاس کروا کر پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔ حکومت کو یہ بل پاس کروانے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کا ہوم ورک مکمل نہیں ہے۔

شاہد میتلا کا کہنا تھا کہ ڈیل کی ضرورت اسٹیبلشمنٹ کو ہے کیونکہ اب نواز شریف ان کی مجبوری ہے۔ حکومت سے معیشت کے معاملے پر بڑی بڑی ناکامیاں ہو رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے کہ ان کی بجائے نہ تو کوئی حکومت چلا سکتا ہے اور نہ ہی معیشت کو سنبھال سکتا ہے۔

نگران سیٹ اپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میری اطلاعات کے مطابق وزیراعظم پیپلز پارٹی کا ہو سکتا ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے کہ اسے ڈیڑھ سال کیلئے یہ عہدہ دیا جائے لیکن نواز شریف یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ اس سے انھیں سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔ ادھر اسٹیبلشمنٹ کی مجبوری ہے کہ عمران خان 2022ء سے پہلے فارغ ہوں۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ اگر فنانس بل کو پارلیمنٹ سے پاس نہ کروایا جا سکا تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ختم ہو جائے گی۔ اس کے بعد تحریک عدم اعتماد لانے کی ضرورت نہیں، حکومت خود ہی گر جاتی ہے۔ فنانس بل صرف اور صرف قومی اسمبلی کا استحقاق ہے، اس کیلئے کسی جوائنٹ سیشن کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان سرکار کے خاتمے کے بعد کون سا سیٹ اپ آئے گا اس پر معاملات ابھی طے نہیں ہوئے لیکن کابینہ کے اراکین گھبرا چکے ہیں۔ اگر انہوں نے کوئی کارکردگی دکھائی ہوتی تو ایسا نہ ہوتا۔ اگر کوئی منصوبہ بن رہا ہے تو پی ٹی آئی رہنما اپنی گھبراہٹ سے اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔