لارڈ نذیر احمد بچوں پر جنسی حملے کے مجرم قرار

لارڈ نذیر احمد بچوں پر جنسی حملے کے مجرم قرار
برطانوی لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے کے سابق رکن لارڈ نذیر احمد کو دو بچوں کے خلاف جنسی جرائم کا قصوروار پایا گیا ہے۔ لارڈ احمد آف روتھرہیم کو ایک لڑکے کے خلاف سنگین جنسی حملے اور ایک کمسن لڑکی کے ریپ کی کوشش کرنے کا مجرم پایا گیا۔
شیفیلڈ کراؤن کورٹ کو بتایا گیا کہ سلسلہ وار جنسی حملے روتھرہیم میں تب ہوئے جب وہ ٹین ایجر تھے۔ اب وہ 64 سال کے ہو چکے ہیں۔ نذیر احمد اپنے اصل نام سے عدالت میں پیش ہوئے اور خود پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی۔
بی بی سی کے مطابق جج مسٹر جسٹس لیوینڈر بعد میں فیصلہ کریں گے کہ لارڈ احمد کو کب سزا سنائی جائے گی۔ ٹرائل کے دوران وکیلِ استغاثہ ٹام لٹل نے عدالت کو بتایا کہ لارڈ احمد نے ستّر کی دہائی کے اوائل میں ایک لڑکی کے ریپ کی کوشش کی تھی جب وہ خود 16 یا 17 سال کے تھے مگر لڑکی اُن سے کمسن تھی۔
اسی عرصے کے دوران 11 سالہ لڑکے پر بھی جنسی حملہ ہوا۔ ٹام لٹل نے کہا کہ لارڈ احمد کا دعویٰ ہے کہ یہ الزامات انہائی من گھڑت ہیں مگر سنہ 2016 میں دونوں متاثرین کے درمیان ہونے والی ایک ٹیلی فون گفتگو کی ریکارڈنگ سے معلوم ہوا کہ یہ 'من گھڑت' واقعات نہیں تھے۔
جیوری کو بتایا گیا کہ خاتون کی کال مرد متاثرہ شخص کی ایک ای میل کے جواب میں ہوئی جس میں کہا گیا کہ اُن کے خلاف اُن کے پاس ثبوت موجود ہیں۔
لارڈ احمد پر اُن کے دو بڑے بھائیوں 71 سالہ محمد فاروق اور 65 سالہ محمد طارق کے ساتھ الزامات عائد کیے گئے تھے مگر بڑے بھائیوں کو ٹرائل کے لیے ان فٹ قرار دیا گیا۔
ان دونوں کے خلاف اسی لڑکے پر ناشائستہ حملے کا الزام ہے جس کا استحصال لارڈ احمد نے کیا تھا۔
حالانکہ یہ دونوں افراد فوجداری ٹرائل میں نہیں تھے لیکن جیوری ثبوت سننے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ اُنھوں نے یہ کام کیا تھا۔
لارڈ احمد نے نومبر 2020 میں اس وقت استعفیٰ دے دیا تھا جب کنڈکٹ کمیٹی کی رپورٹ میں پایا گیا کہ اُنھوں نے خود سے مدد مانگنے والی ایک مجبور خاتون کا جنسی اور جذباتی استحصال کیا تھا۔ انھیں ایک ری ٹرائل کے بعد مجرم پایا گیا تھا۔
ان کے رویے کے خلاف انکوائری بی بی سی نیوز نائٹ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے بعد شروع ہوئی تھی۔ رپورٹ کے ذریعے اُنھیں دارالامرا سے خارج کرنے کی سفارش کی گئی۔ وہ ایسے پہلے لارڈ ہوتے لیکن اُنھوں نے اس کے نفاذ سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔
کراؤن پراسیکیوشن سروس کے سپیشل کرائمز ڈویژن کی سربراہ روزمیری اینسلی نے کہا کہ ان فیصلوں سے جیوری نے واضح فیصلہ دے دیا ہے کہ جرم اور ٹرائل کے درمیان جتنا بھی وقت گزرے، وہ متاثرین کے دعووں کی ساکھ اور سچائی کے حوالے سے مطمئن ہیں۔
ان میں سے ایک مدعا علیہ کچھ وقت کے لیے طاقت، اثر و رسوخ اور ذمہ داری والے عہدے پر تھے مگر اس کیس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ جہاں کافی ثبوت موجود ہوں، مشکل مقدمات میں بھی، وہاں کراؤن پراسیکیوشن سروس استغاثہ دائر کرے گی، جیوری کے سامنے ثبوت پیش کرے گی اور جائز سزا ہوتے ہوئے دیکھے گی۔