پیپلز پارٹی یوسف رضا گیلانی کا استعفیٰ قبول نہ کرے، مسلم لیگ ن

پیپلز پارٹی یوسف رضا گیلانی کا استعفیٰ قبول نہ کرے، مسلم لیگ ن
مسلم لیگ ن نے ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف سینیٹر یوسف رضا گیلانی کا استعفیٰ مسترد کرتے ہوئے پیپلز پارٹی سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کی قدر ومنزلت کو دیکھتے ہوئے اسے تسلیم نہ کرے۔
سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کی سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ سٹیٹ بینک ترمیمی بل جمعہ کے روز ایوان بالا میں پیش کیا گیا تھا، اس پر ووٹنگ کا عمل مکمل کرکے یہ معاملہ ختم کر دیا گیا ہے۔ اس میں جیت یا ہار تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ جب کبھی اپوزیشن کو موقع ملا اور اگر اس میں خامیاں نظر آئیں تو ہم اس میں ضرور ترامیم کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے والد 1995ء میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ اس میں یوسف رضا گیلانی ان کیساتھ تھے۔ وہ ان کو اپنے بیٹے اور بھائی کی طرح سمجھتے تھے۔



لیگی سینیٹر کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی ہمارے لئے انتہائی قابل احترام ہیں۔ وہ پاکستان میں ہر بڑے عہدے پر اپنی ذمہ داریاں ادا کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی وزارت عظمیٰ قربان کردی لیکن اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔
سعدیہ عباسی کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی نے اپنی پارٹی، ملک میں جمہوریت کی بقا اور آئین پاکستان کی خاطر وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا تھا۔ ہمیں ان سے کسی قسم کی وضاحت نہیں چاہیے۔ ان کے سٹیٹ بینک ترمیمی بل کے دوران ایوان میں نہ آنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ ترمیمی بل جب پیش کیا گیا تو ہر جماعت کا کوئی نہ کوئی رکن غیر حاضر تھا۔ ذمہ داری ہماری ہے، ہمیں اس کو قبول کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم یوسف رضا گیلانی کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔ میں ان کی جماعت پیپلز پارٹی سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ ان کا استعفیٰ مسترد کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی ہمیشہ اپوزیشن کو ہر طرح سے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ان کا دفتر سب کیلئے کھلا ہوا ہے۔ میں اور ہماری لیڈرشپ ان کا احترام کرتی ہے۔ اگر کسی کی طرف سے بھی ان کی دل آزاری ہوئی ہے تو ہم معذرت خواہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لیڈر آف اپوزیشن نہیں رہنا چاہتا، استعفا پارٹی کو جمع کرا دیا: یوسف رضا گیلانی

خیال رہے کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ وہ مزید سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر براجمان نہیں رہنا چاہتے اور انہوں نے اپنا استعفا پارٹی کو جمع کرا دیا ہے۔

پیر کو سینیٹ کے اجلاس میں بات کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے تقریر کرتے ہوئے سٹیٹ بینک ترمیمی بل 2022 کے پاس ہونے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ آئٹم ایجنڈے پر موجود نہیں تھی لیکن راتوں رات اس کو ایجنڈے پر لایا گیا اور اس وقت انہیں علم نہیں تھا کہ یہ صبح ایجنڈے پر ہونے جا رہا تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ سینیٹ میں اس روز حاضری یقینی نہیں بنا سکے۔

اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا میں ایک واٹس ایپ میسج گردش کر رہا ہے جس کے مطابق میرے دفتر سے اپوزیشن سینیٹرز کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ 28 جنوری کو سینیٹ میں اپنی حاضری یقینی بنائیں۔ لیکن اس پیغام میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ ایجنڈا کیا تھا اور نہ ہی مجھے علم تھا کہ ایجنڈا کیا ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک الزام کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے وزرا جو یہاں موجود ہیں وہ ضرور جواب دیں لیکن وہ وزرا جن کی کوئی credibility نہیں ہے، ان کو الزامات نہیں لگانے چاہئیں۔

یوسف رضا گیلانی نے سینیٹ چیئرمین کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کو اس بل کی حمایت میں ایسے حالات میں ووٹ نہیں دینا چاہیے تھا جب دونوں جانب سے ووٹ برابر تھے کیونکہ بطور سینیٹ چیئرمین وہ نائب صدر بھی ہیں اور صدر کی موجودگی میں وہ پورے ملک کے صدر ہوتے ہیں لہٰذا انہیں خود کو غیر متنازع رکھنا چاہیے تھا۔ شاہ محمود قریشی کا نام لیے بغیر ان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس بل کے پاس ہونے کا کریڈٹ مجھے دیا جا رہا ہے کہ میں نے غیر حاضر رہ کر اس کو یقینی بنایا لیکن میرے نزدیک یہ کریڈٹ چیئرمین سینیٹ کا ہے جنہوں نے اپوزیشن ارکان کی تعداد زیادہ ہوتے ہوئے اجلاس کو معطل کیا اور اس کے لئے ووٹ بھی دیا۔ “یہ بل آپ نے پاس کروایا ہے، اس کا کریڈٹ آپ کو ہی جاتا ہے۔ دھاندلی ہو رہی ہے”۔

اس کے بعد یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میں مزید اس ایوان میں لیڈر آف دی اپوزیشن نہیں رہنا چاہتا اور اپنا استعفا پارٹی کو دے دیا ہے۔ یاد رہے کہ عہدہ چھوڑنے کے لئے استعفا چیئرمین سینیٹ کو جمع کروانا ضروری ہے۔

جمعے کی شام اس بل کے پاس ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے جیو نیوز پر شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن ارکان کے ووٹ سے یوسف رضا گیلانی لیڈر آف دی اپوزیشن بنے، وہ ماضی میں بھی ہر بار قانون سازی میں حکومت کے ساتھ ووٹنگ کرتے رہے ہیں اور اس بار بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ “میں پہلے بھی پارٹی کے اندر بھی کہہ چکا ہوں اور ٹی وی پر بھی کہا ہے کہ ہمیں ان ووٹوں سے گیلانی صاحب کو منتخب نہیں کروانا چاہیے تھا۔ ہم میڈیا میں آ کر لوگوں کو اپنے مؤقف سے کیسے قائل کریں جب ہم خود ہی قائل نہیں ہیں”۔

تاہم، پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق یوسف رضا گیلانی صاحب نے اپنا استعفا پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بھیجا تھا جس کو قبول نہیں کیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کو پارٹی کی جانب سے بطور اپوزیشن لیڈر کام جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔