دہشتگردی کے جرم میں ملوث لوگوں کو لاپتا کیا جاتا ہے، عدالت سیکریٹری ڈیفنس کے ریمارکس پر برہم

دہشتگردی کے جرم میں ملوث لوگوں کو لاپتا کیا جاتا ہے، عدالت سیکریٹری ڈیفنس کے ریمارکس پر برہم
عدالت نے سیکرٹری ڈیفنس کے ان ریمارکس پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ دہشتگردی کے باعث لوگوں کو لاپتا کیا جاتا ہے۔
تفصیل کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بنچ میں جسٹس شاہد محمود عباسی کی عدالت میں مبینہ طور پر جبری طور پر گمشدہ کئے گئے بخت شاہ زیب، محمد اجمل خان، حسن معاویہ، علی حیدر شاہ،زاہد امین اور صادق امین کے کیسز پر سماعت کی۔
پچھلی سماعت میں عدالت نے تین ہفتے کی مہلت دی تھی۔ سیکریٹری ڈیفنس، سیکریٹری داخلہ اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری کو بلایا گیا تھا کہ وہ جبری گمشدہ افراد کو پیش کریں یا پھر ان کے بارے میں خود آ کر رپورٹ پیش کریں۔
پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ہم عدالت کا احترام کرتے ہیں اور ہر طرح سے ہم عدالت کے ساتھ چلیں گے، عدالت کے ہر حکم کی پابندی کریں گے۔
جسٹس عباسی نے کہا کہ آپ جبری گمشدگی کے معاملے پر عدالت کے حکم کی پابندی نہیں کر رہے اور ہمارا وقت برباد کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے جبری طور پر لاپتا کئے گئے یا جیلوں میں سے اغوا ہوئے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے لے جایا گیا۔ اس کے گھر اور پورے محلے والے واقعے کے چشم دید گواہ ہیں، لہذا آپ ان تمام لوگوں کو پیش کریں، میں کوئی اور بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوں۔
عدالت نے سیکریٹری ڈیفنس سے پوچھا آپ لوگوں کو لاپتا کرنے کے بارے میں کیا جواز پیش کریں گے؟
سیکریٹری ڈیفنس نے عدالت کو بتایا کہ دہشت گردی کے باعث ان لوگوں کو لاپتا کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ ایسے فراد بارڈر کراس کرکے افغانستان چلے جاتے اور واپس آ جاتے ہیں۔
سیکریٹری ڈیفنس نے کہا ملک کو خطرہ لاحق ہے اور افغانستان میں بارود کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ہم بہت خطرناک حالات میں ہیں اور ملک حالت جنگ میں ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کس وقت کی بات کر رہے ہیں، وہ وقت گزر چکا ہے۔ دہشتگردی ختم ہو چکی ہے۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو بارڈر کراس کرکے جاتے ہیں بلکہ ان کو اپنے گھروں اور جیلوں سے جبری طور پر لاپتا کیا گیا ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ آپ ان کو دہشت گردوں سے نہ ملائیں اور ان کو عدالت میں پیش کریں۔ اس کے علاوہ میں کوئی اور بات سننے کو تیار نہیں ہوں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ پرامن ملک ہے اور ہر شہری کو آئینی وبنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں کہ وہ اپنی زندگی پرامن طریقے سے گزار سکے۔
عدالت کے احکامات پر سیکریٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے جبری گمشدگیوں کے معاملے پر سیکریٹری داخلہ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا یہ عدالت آپ کو بھی آخری وارننگ دے رہی ہے، آپ تینوں مل کر لاپتا افراد کو تلاش کرنے میں مدد کریں اور عدالت میں پیش کریں۔
دالت نے سیکریٹری داخلہ سے پوچھا جبری طور پر لاپتا کئے گئے افراد کو واپس لانے میں آپ کو کتنا وقت چاہیے؟ جس پر انہوں نے عدالت کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے پاس لاپتا افراد موجود نہیں ہیں تو ہم ان کو پیش نہیں کر سکیں گے۔
عدالت نے حکومت کو تین ہفتے کا مزید مہلت دیتے ہوئے لاپتا افراد کو 2 مارچ کو پیش کرنے کے احکامات جاری کئے۔ کیس کی اگلی سماعت 2 مارچ 2022 کو ہوگی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔