آرٹیکل 95 کے تحت ہر رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے، صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے ریمارکس

آرٹیکل 95 کے تحت ہر رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے، صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے ریمارکس
آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 95 کے تحت ہر رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت ہر رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے، رکن اگر ووٹ اگرڈل سکتا ہے تو شمار بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ ووٹ کا حق اراکین اسمبلی کو ہے نہ کہ پارٹی اراکین کو، کیا اراکین پارٹی کیساتھ اپنے حلقوں کو جوابدہ نہیں ؟ پارٹی ڈسپلن کی پابندی کس کس حد تک ہے؟

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63A کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن ، جے یو آئی اور سپریم کورٹ بار نے صدارتی ریفرنس کے تحریری جوابات جمع کرادیے۔

عدالت نے صوبائی حکومتوں کو بھی صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومتیں بھی تحریری جوابات جمع کروائیں، اس سے سماعت میں آسانی ہوگی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت چاہیے گی کہہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں گی، معلوم نہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہو گی، تمام جماعتیں جہموری اقدار کی پاسداری کریں۔

جے یو آئی کے وکیل نے کہا کہ ہمارا جلسہ اور دھرنا پرامن ہوگا۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ سے حکومت والے ڈرتے ہیں۔ اس آبزرویشن پر عدالت میں قہقہ لگا۔ اٹارنی جنرل بولے کہ جے یو آئی پر امن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔

جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوس ناک ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جے یو آئی بھی اپنے ڈنڈے تیل سے نکالے ۔

اٹارنی جنرل نے 1992 کے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ ہاؤس میں حکومتی اراکین نے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا کہا، آرٹیکل 63A کے تحت اراکین پارٹی ہدایات کے پابند ہیں، وزیراعظم کے الیکشن اور تحریک عدم اعتماد میں ارکان پارٹی پالیسی پر ہی چل سکتے ہیں، آرٹیکل 63A کی سرخی ہی نااہلی سے متعلق ہے، نااہلی کے لیے آئین میں طریقہ کار واضح ہے، پارٹی میں بات نہ سنی جا رہی ہو تومستعفی ہوا جا سکتا ہے، مستعفی ہوکر رکن اسمبلی دوبارہ عوام میں جا سکتا ہے، معاملہ صرف 63A کی تلوار کا نہیں پورا سسٹم ناکام ہونے کا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے سیاسی اور قانونی محرکات الگ ہیں، سیاسی اثر تو یہ ہے کہ رکن کو دوبارہ ٹکٹ نہیں ملے گا، دوسری کشتی میں چھلانگ لگانے والے کو سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے؟


جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چار مواقع پر اراکین اسمبلی کا پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی ہے، پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی بنانے کے لیے آرٹیکل 63A لایا گیا، کیا دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جاسکتی ہے، زیادہ تر جہموری حکومتیں چند ووٹوں کی برتری سے قائم ہوتی ہیں، کیا دوسری کشتی میں جاتے جاتے پہلا جہاز ڈبویا جاسکتا ہے؟، اب پنڈورا باکس کھل گیا تو میوزیکل چئیر ہی چلتی رہے گی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتیں ادارے ہیں، ڈسپلن کی خلاف ورزی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں، پارٹی لائن کی پابندی نہ ہو تو سیاسی جماعت تباہ ہو جائے گی، سب نے اپنی مرضی کی تو سیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائے گی، انفرادی شخصیات کو طاقتور بنانے سے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں، آئین میں پارٹی سربراہ نہیں پارلیمانی پارٹی کو بااختیار بنایا گیا ہے، پارٹی کی مجموعی رائے انفرادی رائے سے بالاتر ہوتی ہے، سیاسی نظام کے استحکام کے لیے اجتماعی رائے ضروری ہوتی ہے، پارٹی پالیسی سے انحراف روکنے کے لیے آرٹیکل 63 Aشامل کیا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا فلور کراسنگ کی اجازت دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے، کیا اپ پارٹی لیڈر کو بادشاہ سلامت بنانا چاہتے ہیں؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کسی کو بادشاہ نہیں تو لوٹا بھی نہیں بنانا چاہتے، مغرب کے بعض ممالک میں فلور کراسنگ کی اجازت ہے، لیکن مغرب میں کرسمس سے پہلے قیمتیں کم اور یہاں رمضان سے پہلے مہنگائی ہو جاتی ہے، ہر معاشرے کے اپنے ناسور ہوتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا سیاسی جماعتوں کے اندر بحث ہوتی ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس سے زیادہ بحث کیا ہو گی کہ سندھ ہاؤس میں بیٹھ کر پارٹی پر تنقید ہورہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جتنا مرضی غصہ ہو پارٹی کیساتھ کھڑے رہنا چاہیے، مغرب میں بھی لوگ پارٹی کے اندر ہی غصے کا اظہار کرتے ہیں، ووٹ ڈال کر شمار نہ کیا جانا تو توہین آمیز ہے، آرٹیکل 63A میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے، اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے، ایسے معاملات ریفرنس کی بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف پر تاحیات نااہلی ہونی چاہیے، یہ ضمیر کی آواز نہیں کہ اپوزیشن کیساتھ مل جائیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان میں بھی تو اپنے ہی لوگوں نے عدم اعتماد کیا اور حکومت بدل گئی تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بلوچستان میں دونوں گروپ ہی باپ پارٹی کے دعویدار تھے، پارٹی ٹکٹ پر اسمبلی آنے والا پارٹی ڈسپلن کا پابند ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ صدارتی ریفرنس ناقابل سماعت ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ھم چاھتے تھے کہ آپ کو عدالتی معاون مقرر کرتے لیکن چونکہ اپ ایک پارٹی سے ہیں تو اس لئے مقرر نہیں کیا۔ تاہم ہم سب کو سنیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ھم اس پر سماعت کل نماز کے بعد کرینگے جس پر فاروق نائیک نے کہا کہ ممکن ہو تو پیر تک سماعت ملتوی کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نماز کے بعد عدالت ایک گھنٹے تک سماعت کریگی۔ سماعت کل دن ڈیڑھ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔