پی ٹی آئی کے 25 ارکان اسمبلی ڈی سیٹ، حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کی حیثیت اب کیا ہے؟

پی ٹی آئی کے 25 ارکان اسمبلی ڈی سیٹ، حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کی حیثیت اب کیا ہے؟
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے 25 اراکین اسمبلی   ڈی سیٹ ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد یہ اہم سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ حمزہ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کی کرسی کی کیا حیثیت ہے؟

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف نے مطالبہ کیا تھا کہ حمزہ شہباز اب وزیر اعلیٰ نہیں رہے اس لیے وہ اپنے عہدے سے علیحدہ ہو جائیں، تاہم مسلم لیگ ن نے اس مطالبے کو رد کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ حمزہ شہباز ہی وزیراعلیٰ ہیں اور وہ ہی وزیراعلیٰ رہیں گے۔

خیال رہے کہ وزارت اعلیٰ یا اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے صوبے کا فنکشنل گورنر ہونا ضروری ہے لیکن اس وقت پنجاب میں گورنر کا عہدہ خالی ہے۔ وفاقی حکومت نے سابق گورنر عمر چیمہ کو برطرف کیا تھا اس کے بعد سپیکر صوبائی اسمبلی پرویز الٰہی کو نیا قائم مقام گورنر بنا دیا گیا تھا لیکن انہوں نے یہ عہدہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔

معروف قانون دان حامد خان نے کہا ہے کہ اس وقت پیچیدگی حمزہ شہباز کا وزیراعلیٰ ہونا نہیں بلکہ گورنر کے ہونے یا نہ ہونے میں ہے۔ اگر نیا گورنر تعینات نہیں ہوتا تو لامحالہ معاملہ ایک دفعہ پھر عدالت میں جائے گا۔ اس لئے جب تک آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں ہوتے اور نیا انتخاب عمل میں نہیں آتا حمزہ شہباز ہی کام جاری رکھیں گے۔

یہ بات انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز تب تک وزیراعلیٰ کے طور پر کام جاری رکھیں گے جب تک اس عہدے پر وہ خود یا کوئی اور دوبارہ منتخب ہو کر نہیں آ جاتا۔

بعض قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ جب تک صوبے کا گورنر انہیں اعتماد کا ووت لینے کا نہیں کہتا۔ حمزہ شہباز تب تک وزیراعلیٰ کی کرسی پر براجمان رہیں گے۔ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری رانا اسد اللہ کہتے ہیں کہ آئین میں طریقہ کار واضع ہے کہ اگر کوئی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ اسمبلی میں اکثریت کھو دے تو اس کے بعد صدر یا گورنر اس کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہے گا اور اگر وہ اپنی اکثریت نہیں دکھا سکے گا تو عہدہ ختم ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد یہ بات تو واضع ہے کہ اب حمزہ شہباز کی ایوان میں اکثریت نہیں رہی اس لئے اب انہیں اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا۔