اربوں روپے کا ٹیکس چوری کرنے والے عزت دار بن کر ایوانوں میں پہنچ چکے ہیں: خواجہ آصف

اربوں روپے کا ٹیکس چوری کرنے والے عزت دار بن کر ایوانوں میں پہنچ چکے ہیں: خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بڑے بڑے کارٹل اربوں روپے کی چوری کرکے معاشرہ میں عزت دار ٹھہرے، ان میں کئی ان ایوانوں میں بھی پہنچ گئے ہیں۔ ہمیں حلف دینا ہوگا کہ ٹیکس چوروں کی سفارش نہیں کریں گے۔

خواجہ محمد آصف نے کہا کہ پاکستان کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ اگر ان کا درست استعمال ہو اور ٹیکس چوری نہ ہو تو آئی ایم ایف یا کسی ملک کے پاس بھیک مانگنے جانے کی نوبت نہ آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق حکومت معیشت کے راستے میں قدم قدم پر بارودی سرنگیں بچھا کر اور آئی ایم ایف کے سامنے بیچ کر گئی۔ ہم آہستہ آہستہ یہ گانٹھیں کھول رہے ہیں۔ ہمیں مفادات کے کلچر سے باہر نکلنا ہوگا۔ مشکل حالات سے نکلنا اب ہفتوں نہیں دنوں کا کام ہے۔

جمعہ کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو گذشتہ حکومت کے عالمی ادارں سے معاہدے اور وعدے کی چنگل میں وزیر خزانہ نے غیر یقینی اور مخدوش حالات کا سامنا کیا۔ ان حالات کا سامنا ساری قوم کو بھی رہا۔ وزیر خزانہ نے بہادری سے ان حالات کا سامنا کیا۔ اللہ کا شکر ہے ان بارودی سرنگوں سے نکل رہے ہیں، جو پی ٹی آئی کی حکومت بچھا کر گئی تھی۔ حالات بہتری کی طرف جانا اب ہفتوں نہیں دنوں کی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکس کلچر بدلنے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات اہم ہیں۔ اس میں حکومت نے نئی جہت لائی ہے۔ سگریٹ کی دو بڑی کمپنیاں جن کے پاس مارکیٹ کا 60 فیصد ہے وہ 151 ارب روپے کا ٹیکس دیتی ہیں جبکہ بقیہ 40 فیصد کی مالک برائے نام ٹیکس دیتی ہیں۔ جو 2 فیصد سے بھی کم ہے، اس لابی کی نمائندگی ان ایوانوں تک بھی پہنچ چکی ہے، ان کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لا سکتے۔ سیاستدانوں اور اقتدار کے ایوانوں سے تعلقات کی وجہ سے ٹیکس کلچر میں رکاوٹیں ہیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ گاڑیوں، آئی ٹی اور دیگر شعبے بھی ٹیکس نہیں لگانے دیتے۔ ایک انڈسٹری کے لوگوں نے باہر اپنی کمپنیاں بنا رکھی ہیں جو وہاں دستاویزات تیار کرتی ہیں۔ جہاں اس قدر ٹیکس چوری ہوگا وہ ملک بھیک ہی مانگے گا۔ اس سارے کام میں بڑے لوگ ملوث ہیں۔ یہاں ایسے کارٹل بنے ہیں جب تک یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا ملک ترقی نہیں کر سکے گا اور معیشت اپنے مرض سے نجات حاصل نہیں کرسکے گی۔ مذہبی لوگ بھی ان کی سفارشیں کرتے ہیں،اس صورتحال میں کیسے ٹیکس کلچر بہتر ہوگا۔