شارجہ کرکٹ سٹیڈیم کے سٹینڈ کو ٹنڈولکر کے بجائے میانداد سے منسوب ہونا چاہیے تھا

شارجہ کرکٹ سٹیڈیم کے سٹینڈ کو ٹنڈولکر کے بجائے میانداد سے منسوب ہونا چاہیے تھا
شارجہ کرکٹ سٹیڈیم کے ویسٹ سٹینڈ کا نام دنیائے کرکٹ کے عظیم ترین بیٹسمین سچن ٹنڈولکر کے نام پر رکھ دیا گیا ہے جو ایک بہترین فیصلہ ہے۔ سچن ٹنڈولکر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ وہ دنیائے کرکٹ کے پہلے کھلاڑی ہیں جن کے نام سے کسی غیر ملکی کرکٹ سٹیڈیم کے سٹینڈ کو منسوب کیا گیا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے ممالک اپنے عظیم کھلاڑیوں کے ناموں پر اپنے ملک میں سٹیڈیم اور سٹینڈ کے نام رکھتے ہیں مگر کسی دوسرے ملک کی جانب سے کسی کھلاڑی کے نام کرکٹ سٹیڈیم کے سٹینڈ کو منسوب کرنا ایک غیر معمولی بات ہے۔

سچن ٹنڈولکر ایک عظیم بیٹسمین تھے۔ ان کے بلے نے بھارتی ٹیم کی فتوحات کی تاریخ مرتب کی ہے۔ وہ دنیا کے واحد بلے باز ہیں جو ون ڈے اور ٹیسٹ میچوں میں 100 سنچریاں بنانے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ ان کے ہم عصر بلے بازوں میں رکی پونٹنگ، برائن لارا، جیک کیلس اور سنگا کارا بھی ان سے 30 سنچریوں کے فاصلے پر ہیں۔ بلاشبہ ٹنڈولکر کے اس ریکارڈ کو توڑنا ناممکن نظر آتا ہے۔ بھارت کے ویرات کوہلی بھی بہت دور ہیں۔

1989 میں ٹیسٹ اور ون ڈے کیریئر شروع کرنے والے ٹنڈولکر 2013 تک انٹرنیشنل کرکٹ کھیلتے رہے۔ اس دوران دنیائے کرکٹ کے ہر بالر کے خلاف سٹروکس کھیلتے ہوئے ان کے قدم کبھی نہ ڈگمگائے۔ 1989 میں 16 سالہ ٹنڈولکر نے اس وقت کے عظیم لیگ سپنر عبدالقادر جو اپنے عروج پر تھے، ان کو ایک اوور میں 4 چھکے مار کر دنیائے کرکٹ کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ بلاشبہ وہ کرکٹ شائقین خوش نصیب ہیں جو ٹنڈوکر کو کھیلتا دیکھتے رہے۔ سچن ٹنڈولکر نے 1998 میں شارجہ میں آسٹریلیا کے خلاف شاندار سنچری سکور کی تھی اور بھارت کو اس میچ میں فتح دلائی تھی۔ ان کی اسی شاندار اننگز کی بدولت شارجہ کرکٹ سٹیڈیم کے سٹینڈ کا نام ان کے نام پر رکھا گیا ہے۔

مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ شارجہ کرکٹ سٹیڈیم دنیا میں سب سے زیادہ ون ڈے کرکٹ میچز کی میزبانی کرنے والا میدان ہے۔ 1984 میں پاکستان اور سری لنکا کی ٹیموں کے مابین یہاں پہلا ون ڈے میچ کھیلا گیا۔ اب تک اس سٹیڈیم میں 250 کے قریب ون ڈے میچز کھلیے جا چکے ہیں۔ شارجہ کرکٹ سٹیڈیم کو برانڈ بنانے میں جس ون ڈے میچ نے سب سے اہم کردار ادا کیا تھا وہ 1986 میں کھیلا گیا آسٹرو ایشیا کپ کا فائنل میچ تھا جو روایتی حریف بھارت اور پاکستان کے درمیان کھیلا گیا تھا۔ اسی میچ میں آخری گیند پر چھکا مار کر جاوید میاں داد نے پاکستان کو فتح دلائی تھی۔ اس میچ کے بعد شارجہ کرکٹ سٹیڈیم ایک برانڈ بن گیا اور دنیا بھر میں مشہور ہو گیا۔



اس کے بعد وہاں جو بھی ٹورنامنٹ کھیلا گیا، اس کی سپانسرشپ میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ٹی وی رائٹس کروڑوں روپے میں بکنے شروع ہو گئے۔ جاوید میاں داد پاکستان کرکٹ کے ایک اساطیری کردار تھے۔ میدان میں ان کی موجودگی پاکستان ٹیم کی امید، جذبے اور جوش و خروش کی علامت ہوتی تھی۔ ان کے بلے نے پاکستان کرکٹ کی فتوحات کو ہر اس میدان میں پہنچا دیا جہاں جہاں انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی گئی۔ دنیائے کرکٹ کا ہر عظیم کھلاڑی جاوید میاں داد کا مداح ہے۔ ان کی عظمت تک رسائی کسی بھی نووارد کرکٹر کا خواب ہوتی ہے۔ وہ جب تک کرکٹ کھیلتے رہے تب تک ٹیسٹ کرکٹ میں ان کی رنز بنانے کی اوسط 50 سے کم نہیں ہوئی۔ یہ ایک تاریخی سنگ میل تھا۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ شارجہ کرکٹ سٹیڈیم کے سٹینڈ کو جاوید میاں داد کے نام سے منسوب نہیں کیا گیا جن کی اننگز نے شارجہ کرکٹ سٹیڈیم کو انٹرنیشنل کرکٹ برانڈ بنایا۔ اس سلسلے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا کردار شرمناک اور بھارت کے کرکٹ بورڈ کا کردار شاندار ہے۔ پاکستان میں مبینہ طور پر آپریشن رجیم چینج کے بعد وفاقی حکومت نے پاکستان کرکٹ بورڈ میں اپنے من پسند نجم سیٹھی کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنا دیا مگر انہوں نے اپنی ذات کی تشہیر کے سوا کچھ نہیں کیا۔ لہٰذا جاوید میاں داد جیسے عظیم بیٹسمین کا مقدمہ لڑنے کی امید پاکستان کرکٹ بورڈ سے رکھنا فضول ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔