Get Alerts

'الیکشن تاخیر سے کرائے جائیں تاکہ ن لیگ کو دو تہائی اکثریت سے جیتنے کا موقع مل سکے'

'الیکشن تاخیر سے کرائے جائیں تاکہ ن لیگ کو دو تہائی اکثریت سے جیتنے کا موقع مل سکے'
سینئر صحافی اور کالم نگار انصار عباسی نے بتایا کہ کچھ عناصر ایسے تھے جنہوں نے مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کو یہ تجویز دی تھی کہ  وہ جنرل باجوہ کو توسیع دے کر جنرل ساحر کو وائس چیف بنا دیں تو   الیکشن ذرا تاخیر سے کرائے جائیں گے تاکہ ن لیگ کو دو تہائی اکثریت سے جیتنے کا موقع دیا جا سکے۔

صحافی انصار عباسی نے جنگ اخبار میں آج بروز جمعرات شائع ہونے والے کالم میں بتایا کہ کچھ عناصر  ایسے تھے جنہوں نے حکومت میں پریشانی اور کنفیوژن کی صورتحال پیدا کر رکھی تھی۔ یہ وہی چند عناصر  تھے جو حکومت کو مستقل اس بات پر قائل کرنے کی کوششوں میں لگے رہے کہ سابقہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کا بندوبست کریں۔ ان عناصر میں سے ایک شخص نے وزیراعظم شہباز شریف کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ جنرل باجوہ کو توسیع کیلئے رضامند کرلیں تاہم وزیراعظم نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب کہ  جنرل باجوہ کے قریبی ذرائع کا بھی یہ کہنا تھاکہ جنرل باجوہ 29؍ نومبر کے بعد کام نہیں کرنا چاہتے۔

انصار عباسی کے مطابق اسی دوران ملک میں مارشل لاء نافذ ہونے سے متعلق بھی باتیں ہوتی رہیں۔ ذرائع کے مطابق عہدے کیلئے اہل تمام سینئر ترین جرنیلوں کے نام وزیراعظم کو پیش کیے جائیں گے تاکہ وہ آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے کیلئے نام منتخب کریں۔

صحافی نے بتایا کہ اس دوران حکومت اور ن لیگ کی سینئر قیادت کو یہ مشورے بھی دیے جا رہے تھے کہ آرمی چیف کس کو لگانا چاہئے۔ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کو آرمی چیف لگانے کا مشورہ بھی دیا گیا تھا۔ لیکن نواز اور شہباز شریف اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ نومبر کے پہلے ہفتے میں حکومت کو کچھ عناصر نے تجویز دی تھی کہ جنرل باجوہ کو توسیع دے کر جنرل ساحر کو وائس چیف لگا دیا جائے۔ وزیراعظم حکومت تحلیل کر دیں اور ملکی استحکام کے لئےسات ماہ کیلئے عبوری حکومت لائیں جس کے بعد الیکشن کرا دیئے جائیں۔ ان عناصر نے یہ تجویز بھی دی کہ حکومت اور قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نواز شریف کی واپسی میں مدد فراہم کی جائیگی۔ الیکشن ذرا تاخیر سے کرائے جائیں گے تاکہ ن لیگ کو دو تہائی اکثریت سے جیتنے کا موقع دیا جا سکے۔

کالم نگار انصار عباسی نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے  ان تمام پیغامات پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا گیا۔ لندن میں جب نواز اور شہباز شریف کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایسی کسی تجاویز پر دھیان نہیں دیا جائے گا چاہے حکومت کا خاتمہ ہی کیوں نہ ہو جائے۔

شدید پریشانی کے اُن دنوں میں ن لیگ کی قیادت نے وزیراعظم شہباز شریف اور دیگر رہنماوں کو تمام تر افواہوں، دیگر باتوں اور تصادم کو نظرانداز کرنے کی تلقین کی تاکہ درست وقت پر حکومت نیا آرمی چیف مقرر کر سکے۔