پاکستان جمہوری تحریک ( پی ڈی ایم) کے نام سے 11 جماعتی اپوزیشن اتحاد حکومت کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ ان دنوں ملک بھر کے تمام شہروں میں ریلیوں کا دور چل رہا ہے جس کا باقاعدہ آغاز 23 دسمبر کو مردان ریلی سے کیا گیا۔ اپوزیشن اتحاد نے جنوری کے آخر میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان بھی کیا ہے جو کہ ایک انتہائی اقدام ہوگا۔ جبکہ 31 دسمبر تک استعفوں کی دھمکی بھی دی گئی، اپوزیشن کے اس مہلت کی معیاد گزر چکی ہے۔ البتہ پی ڈی ایم قیادت کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ استعفوں کے معاملے پر حکومت مخالف تحریک منقسم ہے۔
نائب صدر مسلم لیگ ن اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز بی بی نے کہا ہے کہ 4 سو سے زائد استعفے آجائینگے تو حکومت کا ایک دن رہنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ اگلے ہی روز عمران خان نے حزب اختلاف کے حلقوں پر شدید لفظی گولہ باری کرتے ہوئے اپوزیشن اتحاد کو اختلاف کا شکار قرار دیا اور کہا کہ اپوزیشن اپنی موت آپ مرگئی ہے جبکہ استعفوں سے بھاگنے کی کوشش کررہی ہے۔ دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری نے بھی حکومت پر تابڑ توڑ حملہ کیا اور کہا کہ پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی پر قوتوں کا دباؤ ہے، ہر رکن پارلیمان میرے پاس اپنا استعفی جمع کراچکا ہے، اب نیب کو استعمال کرتے ہوئے ان ارکان کے خلاف کیسز بنائے جارہے ہیں۔ اسی کے ساتھ انہوں نے مقتدر قوتوں کو اپنے بیان میں دھمکی آمیز ایک خاموش پیغام بھی پہنچایا کہ کرداروں کو بے نقاب کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
دوسری طرف مریم نواز نے بھی علی الاعلان اور مسلم لیگ ن کے اہم رکن رانا ثناءاللہ نے بھی کہا ہے کہ قومیو صوبائی اسمبلی کے اراکین نے پارٹی قیادت کو اپنے اپنے استعفی جمع کرادیے ہیں جبکہ رانا ثناءاللہ کے مطابق بیرون ملک علاج ومعالجے کے لیے مقیم پارٹی اراکین نے بھی اپنے استعفے بھجوا دیے ہیں۔ اس تمام افراتفری میں اگر اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کے پاس قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے استعفے موجود ہیں تو 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن کو کیوں ہاتھ سے جانے دیا؟ خود کو جھوٹا اور حکومت کو سچا کیوں ثابت کیا؟ لانگ مارچ کا انتظار کیوں؟ اگر اپوزیشن کی یہ تحریک واقعی عوام کی تکلیفوں اور مشکل کا مداوا کرنے کے لیے ہے تو کپتان کا قصہ تمام کیوں نہیں کیا؟
حالانکہ قائد جمیعت اور سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن تو روز اول سے ہی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو حلف برداری سے روکتے رہے، اور اب بھی مولانا اپنے موقف پرڈٹ کر کھڑے ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو بھی شیروانی پہننے کی جلدی تھی، اور جلدی جلدی میں وہ مولانا صاحب کا حلف نہ اٹھانے کا مشورہ فراموش کرگئے۔ علاوہ ازیں ن لیگ کے دو اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے پارٹی قیادت کو جمع کرائے گئے استعفے اسپیکر قومی اسمبلی تک پہنچ چکے ہیں، البتہ یہ استعفے پارٹی قیادت سے اسپیکر قومی اسمبلی تک کیسے پہنچے، یہی سوالیہ نشان ہر شخص کی سوچ پر سوار ہے۔
اس سے لگتا ہے کہ مریم اور بلاول اپنی اپنی جگہ درست فرما رہے ہیں کہ اراکین کے استعفے اپنی اپنی پارٹی قیادت کو جمع کرائے جا چکے ہیں لیکن پارٹی قیادت ان استعفوں کے بدلے وہ مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں جس کے لیے انہوں نے ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے بجائے کندھے سے کندھا ملا لیا ہے۔ ن لیگ کے جو دو اراکین کے استعفے اسپیکر قومی اسمبلی تک پہنچے ہیں اس کا مقصد متعلقہ پارٹی قیادت کی جانب سے حکومت کو انتباہ اور پریشرائز کرنا تھا۔ جبکہ استعفوں سے قبل اپوزیشن اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرے گی اور اسلام آباد پہنچنے تک اگر ان کے مطالبات منظور نہیں ہوتے تو پھر اپوزیشن استعفوں کا کارڈ کھیلے گی۔
اپوزیشن اگر واقعی عوام کے لیے نرم گوشہ دل میں رکھتی ہے تو اسے چاہئیے کہ حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بجائے اپنا جمہوری اور حزب اختلاف کا کردار ادا کرے اور پارلیمنٹ میں جاکر نیشنل ڈائیلاگ پر رضا مند ہو، تاکہ تصادم اور کسی انتہائی اقدام سے بچا جاسکے۔ جبکہ دوسری جانب نیشنل ڈائیلاگ کے بدلے حکومت کو بھی اپنا رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی، پکڑ دھکڑ، اور احتجاج کی سیاست کا خاتمہ جمہوریت اور پاکستان کی نشو و نما کے لیے ازحد ضروری ہے